بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قتل کی کوشش کی وجہ سے وارث کو محروم کرنا جائز نہیں


سوال

میں دو بیویوں کا شوہر ہوں، دونوں بیویوں سے اللہ نے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے، میری عمر بڑھ گئی ہے، اہل و عیال کی خیر خواہی کے لیے میری خواہش ہے کہ ان کو چند ضروری باتوں کی تلقین چھوڑ جاؤں، جن میں سے اہم مسئلہ میراث کی تقسیم کا ہے کہ میرے اہل و عیال میں سے جو ذی شعور اور ذمہ دار ہیں وہ کہیں مال کی محبت میں اپنی طاقت کا استعمال کر کمزوروں ( بچوں اور عورتوں ) کو ان کے شرعی مقرر کردہ حق سے محروم نہ کردیں۔

لیکن  میں اپنی ایک بیوی سے اس کی چند کوتاہیوں کی وجہ سے خفا ہوں، ان کوتاہیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے کئی دفعہ ایسا اقدام کیا ہے کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو میں اس دنیا میں نہ رہتا، اس وجہ سے دل آمادہ نہیں ہوتا کہ میرے متروکہ مال میں سے اپنے مفروضہ حصے کی مالک ہوجائے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں کسی طریقے سے اس کو حصے سے محروم کروں؟ کیا میں اس طرح کرنے سے عنداللہ مجرم ہوں گا؟

نوٹ:

میری یہ بیوی تین سال سے گاؤں میں والد کے گھر پر ہے، جب کہ ایک ماہ کی اجازت لے کر گئی تھی، کئی بار واپس لوٹنے کا کہہ چکاہوں مگر واپس نہیں آرہی۔

براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں حل نکال کر مطمئن فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ مال اللہ تعالی کا عطیہ ہوتا ہے، ایک مومن بندے کو چاہیے کہ جب اللہ تعالی اسے مال کی نعمت سے نوازیں تو وہ خوش دلی کے ساتھ  مال سے متعلق اللہ تعالی کے مقرر کردہ فرائض انجام دے،  زندگی میں بھی مسلمان پر  مال کے متعلق مختلف ذمہ داریاں  عائد ہوتی ہیں اور  موت کے بعد   شریعت نے فوت ہونے والے شخص کے مال کو اس کے ورثاء کا حق قرار دیا ہے اور اس بات کی سخت تاکید فرمائی ہے کہ ہر وارث کو اس کا شرعی حصہ دیا جائے اور کسی کو محروم نہ کیا جائے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: جس شخص نے (کسی وارث کو) ایسی میراث سے محروم کیا جس کو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے تو اللہ تعالی اسے جنت کی میراث سے محروم کردے گا۔

البتہ چند امور ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی امر کسی وارث میں پایا جائے تو شریعت خود اس وارث کو میراث سے محروم کردیتی ہے، ان امور میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی وارث اپنے مورث کو ایسے طریقے سے قتل کردے کہ جس سے قاتل پر شرعاً قصاص یا کفارہ لازم ہوجائے، لیکن  مورث کے قتل  کی کوشش کی وجہ سے شریعت وارث کو میراث سے محروم نہیں کرتی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب اللہ تعالی نے کرم کرتے ہوئے سائل کو متعدد بار بیوی کی کوشش کے باوجود موت کے منہ سے بچا لیاہے تو سائل کو چاہیے کہ اللہ کا شکر بجالاتے ہوئے میراث کے متعلق حکمِ خدا پر عمل کرنے میں کسی قسم کی تنگی دل میں نہ لائے بلکہ خوش دلی کے ساتھ میراث کے معاملے کو اللہ تعالی کے فیصلے پر چھوڑ دے، نیز زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، کوئی کسی کی زندگی سے ایک سیکنڈ بھی کم نہیں کرسکتا، سائل خود بھی متعدد بار اس کا مشاہدہ کرچکا ہے، پس سائل کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام کرے جس سے مذکورہ بیوی کو میراث سے محروم کردے، اگر سائل نے ایسا کیا تو عنداللہ مجرم ہوگا۔

کنز العمال میں ہے:

"من ‌قطع ‌ميراثا فرضه الله تعالى قطع الله ميراثه من الجنة۔"

(كنز العمال، المجلد11، كتاب الفرائض، الفصل الاول في فضله و احكام ذوي الفائض و العصبات و ذوي الارحام، ص: 9، ط: مؤسسة الرسالة)

سراجی میں ہے:

"المانع من الارث ارنعة: الرق۔۔۔و القتل الذي يتعلق به وجوب القصاص او الكفارة۔"

(سراجي، فصل في الموانع، ص: 12، ط: مكتبة البشري)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144305100320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں