بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قتل کرنے کے بعد قاتل کی طرف سے معافی کا مطالبہ


سوال

 ایک بندے پر خون کا کیس ہے اب وہ متاثرہ خاندان کو قرآن پاک دے رہا ہے کہ اس کو معاف کیا جائے تو  اگر  وہ قرآن پاک مدعی کے پاس لے آتا ہے تو  مدعی خون معاف کرسکتا ہے؟ جبکہ  مدعی حقیقتاً اس کو معاف نہیں کر نا چاہتا۔

جواب

واضح رہے کہ قتلِ عمد کی صورت میں مقتول کے اولیاء کو قصاص کاحق ہوتا ہے ،جو اسلامی  حکومت کے ذریعے قاتل سے لیا جاتا ہے ،اور اسی طرح ان کو قاتل کو بالکل معاف کردینے کا بھی حق ہوتاہے ،  اگر مقتول کے اولیاء قاتل کو  معاف کردیں تو اس پر ان کو آخرت میں اجر ملے گا،ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت  "(فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ."﴿المائدة: ٤٥﴾تلاوت فرمائی ،پھر ارشاد فرمایا :وہ آدمی جس کادانت توڑدیاجائے یا اس کے بدن کے کسی حصے کو زخمی کردیا جائے پھر وہ معاف کردے ،تو اس سے اس کے بدن کےزخمی حصہ کے معاف کردینے کے بقدر گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ،اگر آدھی دیت کے بقد ر ہو تو آدھے گناہ ،اور اگر دیت کے ایک چوتھائی کے بقدر ہو تو اس کے چوتھائی گناہ ،اور اگر دیت کے ایک تہائی تو اس کے ایک تہائی گناہ ،اور اگر پوری دیت ہی معاف کردے تو اس کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔

لہذا اگر صورتِ  مسئولہ میں مقتول کے اولیاء اگر قاتل سے قصاص لینا چاہیں ،تو شرعًا ان کو اس کا حق حاصل ہے ،اور اگر وہ قاتل کو معاف کردیں  تو  اس پر ان کو اجر ملے گا۔مقتول کے اولیاء وہی ہوں گے جو اس کے ورثاء ہیں ، صرف مدعی نہیں، اگر وہ قرآن لے آئیں تب بھی مدعی ورثاء اپنی صوابدید پر عمل کر سکتے ہیں ، معاف نہ کریں تو ان کو یہ حق حاصل ہے بلکہ آپ ان سے کہو جو قرآن کا فیصلہ ہے وہ تم بھی مانو ہم بھی قبول کرتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

"وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ." ﴿البقرة: ١٧٩﴾ 

 ترجمہ:" اور فہیم لوگو قصاص میں تمہاری جانوں کا بڑا بچاؤ ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ تم لوگ پرہیز رکھوگے۔" (بیان القران )

صحیح البخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد مذکور ہے:

"ومن قتل له قتيل فهو بخير النظرين: إما يودى، وإما يقاد."

(كتاب الديات، باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين، رقم: 6880 ، 552/2 ، ط: رحمانية)

فتاوی شامی  میں ہے :

"(قوله :القود يثبت للورثة) قال في الخانية يستحق القصاص من يستحق ميراثه على فرائض الله تعالى يدخل فيه الزوج والزوجة اهـ."

( كتاب الجنايات ، باب الشهادة في القتل واعتبار حالته ، 568/6، ط:   سعيد )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويقتل الولد بالوالد والوالدة والجد، وإن علا والجدة، وإن علت من قبل الآباء، أو الأمهات كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الجنايات، الباب الثاني في من يقتل قصاصا ومن لايقتل، 4/6، ط: رشيدية)

تفسیر  روح المعانی میں ہے :

"فَمَنْ تَصَدَّقَ أي من المستحقين للقصاص بِهِ أي بالقصاص أي فمن عفا عنه، والتعبير عن ذلك بالتصدق للمبالغة في الترغيب فَهُوَ أي التصدق المذكور كَفَّارَةٌ لَهُ للمتصدق كما أخرجه ابن أبي شيبة عن الشعبي وعليه أكثر المفسرين،وأخرج الديلمي عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما أن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قرأ الآية فقال: «هو الرجل يكسر سنه أو يجرح من جسده فيعفو فيحط عنه من خطاياه بقدر ما عفا عنه من جسده، إن كان نصف الدية فنصف خطاياه، وإن كان ربع الدية فربع خطاياه، وإن كان ثلث الدية فثلث خطاياه، وإن كان الدية كلها فخطاياه كلها» .وأخرج سعيد بن منصور وغيره عن عدي بن ثابت «أن رجلا هتم فم رجل على عهد معاوية رضي الله تعالى عنه فأعطي دية فأبى إلا أن يقتص فأعطي ديتين فأبى فأعطي ثلاثا فحدث رجل من أصحاب النبي صلّى الله عليه وسلّم عن رسول الله عليه الصلاة والسلام قال: من تصدق بدم فما دونه فهو كفارة له من يوم ولد إلى يوم يموت»."

(تفسير روح المعاني ،سورة المائدة،آيت :45، 317/3، ط:دار الكتب العلمية )

تفسیر قرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: (فمن تصدق به فهو كفارة له) شرط وجوابه، أي تصدق بالقصاص فعفا فهو كفارة له، أي لذلك المتصدق. وقيل: هو كفارة للجارح فلا يؤاخذ بجنايته في الآخرة، لأنه يقوم مقام أخذ الحق منه، وأجر المتصدق عليه. وقد ذكر ابن عباس القولين، وعلى الأول أكثر الصحابة ومن بعدهم، وروي الثاني عن ابن عباس ومجاهد، وعن إبراهيم النخعي والشعبي بخلاف عنهما، والأول أظهر لأن العائد فيه يرجع إلى مذكور، وهو" من". وعن أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم: (ما من مسلم يصاب بشيء من جسده فيهبه إلا رفعه الله به درجة وحط عنه به خطيئة). قال ابن العربي: والذي يقول إنه إذا عفا عنه المجروح عفا الله عنه لم يقم عليه دليل، فلا معنى له."

(الجامع لأحكام القرآن ،سورة المائدة ،آيت:45، 208/6، ط: دار الكتب المصرية قاهرة)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144503100946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں