بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قطع تعلق سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟


سوال

میرا کچھ وقت پہلے اپنے خاندان والوں کے ساتھ کسی بات پر مسئلہ چلا جس میں میں نے اپنے تمام خاندان کے افراد کو کئی گواہوں کی موجودگی گی میں کئی بار دعوت دی کہ میرا مطالبہ اگر دنیا کے کسی بھی قانون میں غلط ہو ،کوئی بھی شخص بتائے کہ دنیا کے اس قانون کے تحت آپ کی بات غلط ہیں سوائے شیطانی قانون کے تو میں تمام لوگوں سے پاؤں پکڑ کر معافی اور جرمانہ بھر نے کو تیار ہوں ۔مگر وہ ثابت نہیں کرسکے کہ میں غلط بات پر اصرار کررہاہوں ۔بس وہ غرور وتکبر سے میرے مقابل سب ایک طرف کھڑے ہوکر ڈٹے رہے۔ چونکہ مسئلہ ایسا تھا جس سے میں خود بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا ۔اور مسئلہ شریعت کی روشنی میں بھی سو فیصد درست تھا ۔ اس لئے میں نے دوسرے خاندانوں کے کچھ معتبر لوگوں کو بیچ میں ڈالا اور ان کو اس بات پر پابند کیا جس کا خاندان والوں نے میرے ساتھ معاہدہ کیا تھا ۔ اگر میں دوسرے لوگوں کو درمیان میں نہ ڈالتا تو بات ہم میں سے کسی کی موت تک تقریباً پہنچ چکی تھی ۔ اب اس بات پر میرا چھوٹا سگا چاچا جو کہ  ہمارے خاندان کا سربراہ بھی ہے جس کے کہنے پر تمام خاندان والوں نے مل کر ایک معاہدہ کیا تھا اور اس معاہدے پر سب سے پہلے عمل میں نے کیا ۔اسی چھوٹے چاچا نے مجھے پیغام بھیجا کہ میرا اور آپ کا قطع تعلق ہے ۔ مگر میں اور میرے گھر والے  پھر بھی اس کے ہاں آتے جاتے رہے ۔ اس نے پھر مجھے فون کیا کہ میں نے آپ کو کہا بھی تھا کہ ہمارا اور تمہارا قطع تعلق ہے ۔میں نے کہا اللّہ خیر کرے آئندہ خیال کرونگا ۔ مگر میں نے گھر والوں کو کہا کہ چند دن تک نہ جاؤ پھر جائینگے اور تقریباً ہفتے بعد میں نے امی اور بیوی کو ان کے گھر بھیجا تو اس نے پھر فون کیا کہ میں نے منع کیا تھا پھر کیوں آئے میرے گھر ۔ بہرحال  ایسا کئی مرتبہ ہوا ۔اور ہر بار میں نے پوچھا اور کہا کہ مجھے میرا گناہ بتاؤ ۔مگر اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوتا ۔ اس دوران میرے چاچا کی بیوی کا انتقال ہوگیا اس نے پھر جواب بھجوایا کہ خبر دار اگر کوئی میری بیوی کی میت پر آیا تو میں ان کی بے عزتی کرونگا ۔اس کے بعد میں نے اپنی امی اور بیوی کو منع کیا کہ آپ لوگ نہیں جائیں ۔ایسا نہ ہو کہ وہ انتہائی بد تمیزی پر اتر آئے ،پھر میں اور وہ دست وگریباں ہوں ۔اس لئے آپ لوگ نہ جائیں ۔ اور میں خود جاکر جہاں دعا کے لئے جگہ بنائی تھی وہاں جاکر دعا میں بھی شریک ہوا اس کے سامنے جنازے میں بھی شریک ہوا اور قبرستان بھی گیا اس کے بعد اس کے بچوں کے ساتھ باہر اگر ملتے ہیں میرا رویہ پہلے سے بھی بہتر ہوگیا اور  صرف اپنے چاچا سے میں نے بول چال خیر وعافیت سب کچھ بند کردیا ۔جبکہ میرے چاچا نے تو بہت پہلے ہی تعلق ختم کردیا تھا حتیٰ کہ میری 3 سال کی بیٹی جب دوسرے چھوٹے بچوں کیساتھ باہر ہوتی ہے تو وہ سب بچوں کے ساتھ گپ شپ کرتا ہے اور یہ معصوم بچی اگر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو وہ پرے دھکیل دیتا ہے ۔

اب سوال یہ ہے  کہ ان حالات میں جو میں نے اپنے چاچا کے ساتھ بول چال بند کردی ۔کیا قطع تعلق کے متعلق آئی ہوئی وعید مجھ پر بھی لاگو ہو گی یا نہیں؟ جبکہ میں نے بہت کوشش کی دوسرے لوگوں کو بھی درمیان میں ڈالا کہ قطع تعلق نہ کریں، میرا جو گناہ ہے مجھے بتائیں، میں ہر سزا بھگتنے کو تیار ہوں ۔ اور بغیر گناہ کے بھی میں اس سے معافی مانگتا ہوں اور اس کے پاؤں پکڑ نے کو تیار ہوں ۔ مگر ماننے کو تیار نہیں ۔ اب قطع تعلق کے گناہ میں کیا میں مجرم ہوں یا نہیں ؟بہت سخت پریشان ہوں۔ کیونکہ میرا اٹھنا بیٹھنا علماء کرام کے ساتھ ہے اورمیں نے قطع تعلق کرنے کی وعیدیں بہت سخت سنی ہیں  ۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے مذکورہ چاچا سے مل کر انہیں سلام کر لے، پس اگر وہ سلام کا جواب نہ دیں، یا بات نہ کریں، تو سائل قطع تعلق کی وعید کا حقدار نہ ہوگا، اسی طرح جب کبھی مذکورہ چاچا سے سائل کا آمنا سامنا ہو، انہیں سلام کر لیا کرے،  باقی اگر وہ جواب دے دیں، تو انہیں بھی ثواب ہوگا، وگرنہ سائل قطع تعلق کے گناہ سے بری ہوگا۔

سنن أبی داود میں ہے:

"٤٩١١ - حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي أيوب الأنصاري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاثة أيام، يلتقيان فيعرض هذا، ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام."

ترجمہ:" حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے، اور وہ منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔"

"٤٩١٢ - حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، وأحمد بن سعيد السرخسي، أن أبا عامر، أخبرهم حدثنا محمد بن هلال، قال: حدثني أبي، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لمؤمن أن يهجر مؤمنا فوق ثلاث، فإن مرت به ثلاث، فليلقه فليسلم عليه، فإن رد عليه السلام فقد اشتركا في الأجر، وإن لم يرد عليه فقد باء بالإثم» زاد أحمد «وخرج المسلم من الهجرة."

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "کسی مومن کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی مومن سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے، اگر تین دن ہو جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ مسلمان بھائی سے جا ملے اور اس کو سلام کرے، اب اگر وہ سلام کا جواب دے دے، تو وہ دونوں اجر میں شریک ہیں اور اگر وہ جواب نہیں دے تو وہ گنہگار ہوا، اور سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے نکل جائے گا۔"

( كتاب الأدب، باب فيمن يهجر أخاه المسلم، ٤ / ٢٧٨، ٢٧٩،ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101750

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں