بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوست ناراض ہے، کیسے راضی کریں؟


سوال

دوست  ناراض  ہے، اس کو راضی کرنے کا وظیفہ بتادیں !

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان سے بغیر کسی شرعی وجہ کے قطع تعلق کرنا یا تین دن سے زیادہ ناراضی اختیار کرنا جائز نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"و عن أبي هريرة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال: قال رَسُول اللَّهِ ﷺ: لايحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث، فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار." ( رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ بإسناد على شرط البخاري ومسلم)

ترجمہ:  مسلمان  کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن  سے زیادہ ترک تعلق رکھے، پس جس نے تین روز سے زیادہ ترک تعلق رکھا (اسی دوران) اسے موت آگئی تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ : 

"وعن أبي أيوب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أن رَسُول اللَّهِ ﷺ قال: (لايحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال: يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا؛ وخيرهما الذي يبدأ بالسلام). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ".

ترجمہ: مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے (ترک تعلق) رکھے، کہ وہ دونوں ملیں پھر یہ اس سے اعراض کرے اور وہ اس سے اعراض کرے، ان دونوں میں سے بہترین وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔

لہذا سائل  کو چاہیےکہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ  ان کے دوست کس وجہ سے سائل سے ناراض ہیں ، پھر اگر وہ وجہ معقول اور یقینًا قابل تنبیہ ہو تو اس شکایت کو دور کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرے  ،اور اگر وہ بلا کسی معقول وجہ کے سائل سے ترکِ تعلق کیے ہوۓ ہے تو  بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیےتواضع اختیار کرتے ہوئے ان سے رابطہ کرکے راضی کرلیں، اپنی حیثیت کے مطابق  کوئی تحفہ بھی دے دیں، اس سے دل قریب ہوجائیں گے، حدیث شریف میں ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تواضع اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بلند فرمائیں گے، یعنی عزت بڑھادیں گے، اور ایک حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ تحفے کے لین دین سے محبت بڑھتی ہے۔ اگر وہ پھر بھی راضی نہ ہو تو خالص خیر خواہی اور رضاۓ الٰہی کے حصول کے جذبہ سے اُن تک قطع  تعلقات سے متعلق تنبیہات ِ نبویہ پہنچادیجیے  اور تعلقات بحال کرنے کی ترغیب  دیجیے، اور "یَا وَدُوْدُ" کثرت سے پڑھیے۔

پھر بھی اگر وہ راضی نہیں ہوتے تو اپنا دل صاف رکھیے اور جب ملاقات ہو تو سلام دعا جاری رکھیے، اس کے بعد ان شاء اللہ آپ سے مواخذہ نہیں ہوگا۔

 واضح رہے کہ دینداری کی پرواہ کیے بغیر،تعلقات کی کثرت  اور انہیں نبھانے  کی کوشش میں لگے رہنا  شرعًا ناپسندیدہ  ہے، جائز دنیاوی ضرورت کے لیے تعلق قائم  رکھنے کی اجازت ہے، جب کہ خالص اللہ تعالی کے لیے  اور دین کی بنیاد پر تعلق  رکھنے کو دینِ اسلام میں پسند  کیا گیا ہے  اور  صلہ رحمی کا شریعت نے حکم بھی دیا ہے اور اس کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ صرف اور صرف دنیوی اغراض و مقاصد کی خاطر تعلقات قائم کرنے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے ، چنانچہ ارشاد نبوی ہے :

"عَنْ مُعَاذٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْه وَسَلَّمَ يَقُوْلُ :  قَالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ : الْمُتَحَابُّونَ في جَلَالِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ."

ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو یہ فرماتے سنا :  ” اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ( بروز قیامت ) ارشاد فرمائے گا :  آج میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت رکھنے والوں کے لیے نور کے منبر ہوں گے، انبیاءاورشہداء اُن پر رشک کریں گے ۔   ‘‘

(ترمذی ، کتاب الزھد ، باب ما جاء فی الحب فی اللہ ، حدیث :  ۲۳۹۷ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں