بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قطع تعلق کرنا کس صورت میں جائز ہے؟


سوال

ہمارے رشتہ دار جو کہ ہمارے کھلے دشمن ہیں وہ ہم سے صرف اس لیے ملناجلنا رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری باتیں اور حالات پتہ چلیں اور اس طرح وہ ہمیں مزید ایذائیں پہنچائیں اوروہ اس سے پہلے بھی اسٹامپ پیپر پر ہم سے قطع تعلقی کر چکے ہوں، ایذا پہچانے کے لیے، بعد میں اس عمل کی معافی بھی مانگی؛ تاکہ ملنا جلنا شروع ہو جاۓاور دوبارہ ملنا شروع کرنے پر نقصان پہنچا چکے ہوں اور مزیدہمارا برا کر چکے ہوں اور اب دوبارہ تعلقات بحال کرنا چاہ رہے ہیں مگر اب ہم ان سے ملنا نہیں چاہتے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ قطع تعلقی کرنے والے پر جنت حرام ہوتی ہے، کیا ان سے تعلقات نہ رکھنے پر ہم پر اللہ کی پکڑ ہوگی؟

جواب

واضح رہےکہ قطع تعلقی کرنے والے کے لیے احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، مسلمان سےقطع تعلق ہونےسےبچنےکی کوشش کرنی چاہیے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل کادنیوی امور کی بنیاد پراپنے رشتہ داروں سے قطع تعلقی اختیار کرنا، سلام کلام بندکرنا درست نہیں ، ہاں اگر سائل کوواقعۃًاپنےمذکورہ رشتہ داروں کی طرف سےباربارایذاء اور نقصان پہنچاہو اورآئندہ کے لیےبھی نقصان کا قوی اندیشہ ہو ،توپھر سائل اپنےمذکورہ رشتہ داروں کے ساتھ میل جول کو کم رکھ کران کے ساتھ تعلقات کو محدود کرسکتےہیں کہ اگر کہیں آمنا سامنا ہوجائے، تو سلام دعا پراکتفاءکیا جائے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين... ويمكن أن يقال الهجرة المحرمة إنما تكون مع العداوة والشحناء، كما يدل عليه الحديث الذي يليه، فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى۔"

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،الفصل الأول،  ج:8 ، ص: 3147، ط:دار الفكر بيروت)

صحيح بخاری میں ہے:

" عن ابن شهاب: أن محمد بن جبير بن مطعم قال إن جبير بن مطعم، أخبره: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لا يدخل الجنة قاطع."

ترجمہ : "حضرت  جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔"

(كتاب الآداب،  باب: إثم القاطع، ج:٥، ص:٢٢٣١، ط:دار ابن كثير دمشق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں