اگر کسی نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو وصیت کی ہو کہ ہمارے فلاں رشتہ دار جو کہ اولاد کے ماموں بھی ہیں، ان سے رشتہ داری نہیں رکھنی، کیوں کہ ان سے ہمارا لڑائی جھگڑا ہوا تھا کافی دیر پہلے ، تو ان کے ساتھ رشتہ داری نہیں رکھنی، بس مجبوری کے تعلقات رکھنے ہیں جیسے خوشی غمی وغیرہ جو کہ نہ ہونے کے برابر ہیں تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہے ؟ اور کیا ایسا کرنا صلہ رحمی کے خلاف نہیں؟ اگر نا جائز ہے تو کیا وصیت کرنے والے کو اس پر گناہ ہو گا؟ یہ پوچھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس گھر کا لڑکا اپنے ماموں کے گھر رشتہ کرنا چاہتا ہے، لڑکی بھی راضی ہے اور لڑکی کے گھر والے بھی اور لڑکے کے بھائی صرف اسی وجہ سے رشتہ کرنا نہیں چاہتے کہ والد مرحوم نے وصیت کی تھی، جب کہ لڑکے کی والدہ کی بھی وفات ہوگئی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ وصیت چوں کہ بغیر شرعی وجہ کے قطع تعلقی پر مبنی ہے لہذا یہ شرعاً ناجائز ہے، لہذا اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، ایسی وصیت کرنے والا بھی گناہ گار تھا، اس کے ورثاء کو اس کی ناجائز وصیت کی تلافی صلہ رحمی کر کے کرنی چاہیے اور اس کے لیے توبہ و استغفار کرنا چاہیے، لہذا مذکورہ لڑکا اپنے ماموں کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے۔
مرقاة المفاتيح ميں ہے:
" وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق، فإنه صلى الله عليه وسلم لما خاف على كعب بن مالك وأصحابه النفاق حين تخلفوا عن غزوة تبوك أمر بهجرانهم خمسين يوما، وقد هجر نساءه شهرا وهجرت عائشة ابن الزبير مدة، وهجر جماعة من الصحابة جماعة منهم، وماتوا متهاجرين، ولعل أحد الأمرين منسوخ بالآخر.
قلت: الأظهر أن يحمل نحو هذا الحديث على المتواخيين أو المتساويين، بخلاف الوالد مع الولد، والأستاذ مع تلميذه، وعليه يحمل ما وقر من السلف والخلق لبعض الخلف، ويمكن أن يقال الهجرة المحرمة إنما تكون مع العداوة والشحناء، كما يدل عليه الحديث الذي يليه، فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى"
(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج8، ص3147، دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144208200138
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن