بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسم کی ایک خاص صورت اور اس کا حکم


سوال

۱)  سب سے پہلے یہ کہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں اب جب بھی ماروں گا تو تمھارے کان ہی پر ماروں گا میں بھی قسم کھاتا ہوں تو اس سے کون سی قسم منعقد ہو گی ؟ 

۲) کیا یہ جب جب اسے کان کے علاوہ کہیں اور مارے گا تو حانث ہو گا ؟ یا بس ایک دفعہ مارنے سے ؟ کیوں کہ اس کے الفاظ تھے کہ جب بھی مارا کان پر ہی ماروں گا،  جب جب نہیں کہا، لیکن نیت یہی تھی کہ جب جب مارا کان پر ماروں گا تو کیا یہاں نیت کا بھی اعتبار ہو گا یا بس الفاظ کا  کیوں کہ الفاظ جب جب کے استعمال نہیں کیے بس ایک بار کہا جب بھی مارا ؟

۳) اور اگر نیت کا اعتبار ہو گا تو پھرقسم میں بھی نیت کا اعتبار ہونا چاہیے کہ اس کی نیت قسم کھانے کی نہیں تھی الفاظ قسم کے ادا ہو گئے ۔

۴) اور یہ کہ اس سے کون سا مارنا مراد ہو گا ؟ عقاباً کسی کو مارنا یا بس ایسے ہی کسی کو ہاتھ مار دیا یا تالی مار دی؟

۵) اور یہ کہ قسم کھانے والے کی نیت میں نہیں تھا کہ واقعی ایسا ہی کرنا ہے بس کسی کو تنگ کرنے کی نیت سے ہنسی مذاق میں کہہ دیں کہ اب تو کان ہی پر ماروں گا اور اگر واقعی اس سے ہر دفعہ کان کے علاوہ کہیں اور مارنے سے حانث ہو گا تو اس سے تو بڑا حرج لازم آجائے گا کہ کسی ایسے شخص کے بارے میں قسم کھائی جس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے تو یوں تو وہ بار بار حانث ہو گا؟ تو اس قسم سے نکلنے کی اب کیا صورت ہو گی؟

۶) اور جو یہ بات ہے کہ اگر کسی کو عادت ہے بات بات پر قسم کھانے کی تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ قسم لغو ہو جاۓ گی ۔ تو کیا یہ ماضی کے ساتھ ہی خاص ہے کہ کوئی یوں کہے کہ واللہ ایسے نہیں ہے یا واللہ ایسے ہی ہے مطلب گزری ہوئی بات پر قسم کھاۓ  یا یہ بھی اسی میں داخل ہے کہ عادتًا کوئی یوں کہہ دے کہ واللہ ایسے ہی کروں گا ۔ مطلب مسقبل کی بات کی لیکن عادتًا لفظ قسم کا استعمال کیا ؟ تو یہ بھی اس کی عادت ہونے کی وجہ سے لغو جاۓ گا؟  یا قسم پڑ جائے گی؟

جواب

۱) صورت مسئولہ میں "یمین منعقدہ " منعقد ہوئی یعنی مستقبل میں کسی کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانا۔ مذکورہ صورت میں سائل نے کان کے علاوہ کسی دوسرے عضو پر نہ مارنے کی قسم کھائی ہے ۔

۲) جب پہلی دفعہ کان کے علاوہ کسی عضو پر مارے گا اس وقت حانث ہوجائے گا اس کے بعد دوبارہ کا ن کے علاوہ کسی عضو پر مارنے کی وجہ سے حانث نہیں ہوگا اگرچہ نیت جب جب کے معنی کی  ہو؛ کیوں کہ  حکم الفاظ پر لگے گا، نیت پر نہیں۔

۳) قسم کے الفاظ استعمال کرنے کی وجہ سے قسم منعقد ہوجائے گی ، نیت نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

۴)سائل کی نیت اگر عام تھی یعنی ہر طرح سے مارنا، چاہے غصہ میں ہو، بدله لینے کے لیے ہو یا ہنسی مذاق میں مارنا ہو نیت میں داخل تھا تو پھر قسم بھی عام ہوگی؛  لہذا وہ شخص جس صورت میں بھی کان کے علاوہ مارے گا حانث ہوجائے گا۔ اگر نیت صرف غصہ میں بدله لیتے وقت مارنے کی تھی یا کوئی نیت نہیں تھی تو پھر  ہنسی مذاق میں مارنے کی صورت میں حانث نہیں ہوگا، صرف  غصہ میں کان کے علاوہ مارنے کی صورت میں حانث ہوگا۔

۵) ما قبل کی شق میں یہ بات گزر چکی کہ ان الفاظ سے ہر ہر مرتبہ حانث نہیں ہوگا،  بلکہ ایک مرتبہ میں قسم پوری ہوجائے گی اور صرف ایک مرتبہ کفارہ آئے گا۔

۶) مستقبل میں کسی کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے والا شخص اگر عادت  کی بنا  پر بھی قسم کے الفاظ استعمال کرے گا تو قسم منعقد ہوجائے  گی اور  خلاف  ورزی کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا۔ عادت والے شخص کے حق میں جو قسم لغو ہوتی ہے،  وہ صرف زمانه ماضی اور حال کے ساتھ خاص ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: أشهد أن لا أفعل كذا، أو أشهد بالله، أو قال: أحلف، أو أحلف بالله، أو أقسم، أو أقسم بالله، أو أعزم، أو أعزم بالله، أو قال: عليه عهد، أو عليه عهد الله أن لا يفعل كذا، أو قال: عليه ذمة الله أن لا يفعل كذا يكون يمينا"

(کتاب الایمان فصل اول ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۳،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه، وقد اشتهر عن الشافعية خلافه (إن حلف كاذبا يظنه صادقا) في ماض أو حال فالفارق بين الغموس واللغو تعمد الكذب، وأما في المستقبل فالمنعقدة وخصه الشافعي بما جرى على اللسان بلا قصد، مثل لا والله وبلى والله ولو لآت

قوله وخصه الشافعي إلخ) اعلم أن تفسير اللغو بما ذكره المصنف هو المذكور في المتون والهداية وشروحها. ونقل الزيلعي أنه روي عن أبي حنيفة كقول الشافعي. وفي الاختيار أنه حكاه محمد عن أبي حنيفة، وكذا نقل في البدائع الأول عن أصحابنا. ثم قال: وما ذكر محمد على أثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال، وعندنا ذلك لغو. فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة فيها اهـ"

(کتاب الایمانج نمبر ۳ ص نمبر ۷۰۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"الأصل أن الأيمان مبنية عند الشافعي على الحقيقة اللغوية، وعند مالك على الاستعمال القرآني، وعند أحمد على النية، وعندنا على العرف ما لم ينو ما يحتمله اللفظ فلا حنث في لا يهدم إلا بالنية فتح

(قوله فلا حنث إلخ).....فالوجه فيه إن كان نواه في عموم قوله بيتا حنث وإن لم يخطر له فلا لانصراف الكلام إلى المتعارف عند إطلاق لفظ بيت فظهر أن مرادنا بانصراف الكلام إلى العرف إذا لم تكن له نية، وإن كان له نية شيء واللفظ يحتمله انعقد اليمين باعتباره اهـ وتبعه في البحر وغيره"

(کتاب الایمان، باب الیمین فی الدخول و الخروج  ج نمبر ۳ ص نمبر ۷۴۳،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض)

(قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد، لا يحنث بركوبه إنسانا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتي وقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر"

(کتاب الایمان، باب الیمین فی الدخول و الخروج  ج نمبر ۳ ص نمبر ۷۴۳،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں