بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وطنِ اقامت سے وطنِ اصلی جانے کی صورت میں نماز کا حکم قصر یا اتمام؟


سوال

تنقیح فتوی نمبر 144401100733 سوال۔  میرا اور میری بیوی کا آبائی تعلق ضلع صوابی خیبر پختونخواہ سے ہے،  میرے دادا  محترم تقریبًا  70  سال پہلے معاش کے سلسلے میں پشاور آئے اور  یہیں  پر رہائش اختیار کی اسی طرح میرے دادا سسر جو کہ میری والدہ کے سگے ماموں تھے نے لاہور پنجاب میں رہائش اختیار کر لی ۔  ہم  سال میں 3 / 4 بار گاؤں جاتے ہیں ،گاؤں میں میرے دادا صاحب کی زمین تھی وہ ساری بیچ ڈالی اس میں بقدر ضرورت میرے چچاؤں اور والد صاحب نے اپنے اپنے حصے کے گھروں کے  لیے زمین چھوڑی ہے، بڑے دونوں چچاؤں نے اپنے اپنے حصے پر گھر تعمیر  کیے ہیں،  جب کہ میرے والد صاحب نے صرف بنیادیں ہی رکھیں ہیں، ہماری تدفین گاؤں میں ہوتی ہے جب کہ سسرال والوں کا صرف 1 ہی گھر ہے وہ بھی بچیوں کے ناظرہ و ترجمہ مدرسہ کے  لیے دے دیا ہے ان کی تدفین مکس ہے، کچھ کو لاہور میں اور کچھ کو گاؤں میں دفنا چکے ہیں اورمستقبل  میں مستقل لاہور میں ہی تدفین کرانے کا ارادہ ہے،  ہم الحمد اللہ گاؤں میں پوری نماز ہی پڑھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ میری بیوی گاؤں میں پوری نماز پڑھے گی یا سفرانہ ؟ 

تنقیح:

1- سائل بیوی کے ساتھ کہاں رہائش پذیر ہے؟

2- یہ وطن اقامت ہےیا وطن اصلی ہے؟

3- آبائی علاقے میں سائل کا اپنا گھر ہے یا نہیں ؟

الغرض رہائش کے بارے میں مکمل تفصیل لکھی جائے۔

جواب تنقیح:

پوچھے گئے سوالات کی تفصیلات درجہ ذیل ہے:

  پشاور  وطنِ  اقامت  ہے اور صوابی وطن اصلی  ہے، وطن اصلی میں ہمارا گھر نہیں ہے،  جب بھی گاؤں جاتے ہیں تب نانی اماں کے گھر رہتے ہیں، گھر کے حساب کی زمین ہے،  مستقبل میں ان شاء اللہ  گھر بنانے کا ارادہ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو   اس کا پہلا وطن اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطن اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی کبھی کبھار رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے بھی تعلق ہے اس کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں ہے، مثلاًاس کی زمینیں اور مکانات وغیرہ وہاں موجود ہیں تو دونوں  جگہیں اس کے وطن اصلی شمار ہوں گے، جب وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگا، اور درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نےمستقل طور پر  اپنے وطن اصلی سےتعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ  پشاور میں رہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نیت ہے کہ صوابی کا آبائی علاقہ بھی ہمارا وطن ہے، تو  وہ وہاں مکمل نماز پڑھیں گے، اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ہی کیوں نہ گئے ہوں۔ اور سائل کی بیوی سائل کے تابع ہے سائل کے ساتھ جہاں جائے گی تو جہاں سائل پر قصر کے احکامات جاری ہوں گے وہیں  اس کی اہلیہ بھی اس کے مطابق عمل کرے گی، اور جہاں سائل پوری نماز پڑھے  گا وہاں اس کی اہلیہ بھی پوری نماز پڑھے گی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے: 

"وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر. ا هـ

 وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر".

(ج: 4، صفحہ: 378 و379، ط: دار احياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100974

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں