بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

قربانی قصدا ترک کرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص قصداً قربانی کو ترک کرے تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص صاحب نصاب ہو کہ وہ ساڑھے سات تولہ سونا یاساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر رقم یا ضرورت اصلیہ سے زائد مال  کا مالک ہے ، یا کچھ سونا اور کچھ چاندی یا رقم وغیرہ ہے، جس کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہے،یا ضرورت سے زائد اتنے سامان کا مالک ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہے تو ایسے  شخص پر  عید الاضحٰی کے ایام میں قربانی کرناواجب ہے؛  اگر کسی پر قربانی واجب ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو گناہ گار ہوگا  اور  قربانی کے ایام گزرجانے  کی صورت میں  ایک بکرے  کی قیمت یا قربانی کے ایک حصے کی قیمت کے برابررقم صدقہ کر نا بھی لازم ہوگا۔  وسعت   کے باوجود  قربانی  نہ کرنے والے سے متعلق فرمان نبوی ہے: جس کے پاس گنجا ئش ہو، اوروہ اس کے باوجودقربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "‌من ‌كان ‌له ‌سعة، و لم يضح، فلايقربن مصلانا."

(‌‌أبواب الأضاحي، الأضاحي واجبة هي أم لا؟: 226، قدیمی)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کے پاس گنجا ئش ہو، اوروہ اس کے باوجودقربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

منها أنها ‌تجب ‌في ‌وقتها وجوبا موسعا في جملة الوقت من غير عين، ففي أي وقت ضحى من عليه الواجب كان مؤديا للواجب سواء كان في أول الوقت أو في وسطه أو آخره.

(كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها: 5/ 293، ط: رشیديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں