بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قصر نماز کا طریقہ


سوال

سفر کے دوران نماز کا طریقہ اور اپنے شہر سے دوسرے شہر جانا ہو اور دوسرے شہر میں کچھ دن رہنا پڑ جائے تو اس دوران نماز کا طریقہ کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے قصر نماز اس وقت پڑھی جائے گی جب کوئی اپنے شہر یا علاقے سے باہر کم از کم تین دن تین رات کی مسافت کے سفر کے ارادہ سے نکلے جس کا اندازا 48 میل یا سواستترکلومیٹر سے لگایا گیا ہے، اور اس شخص کا ارادہ وہاں پندرہ دن سے کم قیام کا ہو بشرطیکہ جہاں قیام کر رہا ہے وہ جگہ مسافر کا وطن اصلی نہ ہو، تو یہ شخص قصر پڑھے گا، قصر کا مطلب یہ ہےکہ ہر چار رکعت والی فرض نماز دو پڑھے گا، مغرب کی نماز حسبِ سابق تین رکعت ہی پڑھی جائے گی، سنتوں  کا حکم یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی نمازوں کی مؤکدہ  سنتیں نہ پڑھنے کا اختیار ہوگا، البتہ پڑھ لینا افضل ہے، فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ اگر سفر جاری ہو اور سنتیں پڑھنے میں حرج ہو تو چھوڑ دے، اور اگر سفر کے دوران کہیں قیام ہو تو سنتیں ادا کرلے، البتہ فجر کی سنتیں بہرصورت پڑھے، چاہے سفر جاری ہو یا رکا ہوا ہو، نیز وتر کی نماز بھی واجب رہے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 121): 

"(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر. وفي الخانية: إن كان بين الفناء والمصر أقل من غلوة و ليس بينهما مزرعة يشترط مجاوزته وإلا فلا (قاصدًا) ولو كافرًا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة ولايشترط سفر كل يوم إلى الليل بل إلى الزوال و لا اعتبار بالفراسخ على المذهب (بالسير الوسط مع الاستراحات المعتادة) حتى لو أسرع فوصل في يومين قصر؛ ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني.

(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا لقول ابن عباس: «إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعًا ..." الخ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں