بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسم توڑنے کا حکم


سوال

اگر کوئی بندہ یہ کہے کہ" مجھے اللہ کی قسم میں فلاں گناہ نہیں کروں گا" پھر گناہ کرلیا تو کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سوال میں ذکر کردہ الفاظ( مجھے اللہ کی قسم میں فلاں گناہ نہیں کروں گا) الفاظ کہنے سے قسم شرعی طور پر منعقد ہوگئی ہے، لہذا قسم کھانے کے بعد مذکورہ گناہ کرنے کی وجہ سے قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔ قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے اور اگر اس کی طاقت نہیں تو لگاتار تین روزے رکھے۔

باقی سائل کو چاہیے کہ کسی بھی قسم کا ایسا فعل جو اللہ تعالیٰ کے ناراضگی اور اس کے غضب کا سبب ہو اس سے کسی بھی طریقہ سے احتراز کرنا چاہیے، صدقِ دل سے آئندہ مکمل طور پر نہ کرنے کے عزم کے ساتھ توبہ واستغفار کرنا چاہیے، مذکورہ ارادے کے ساتھ ان شاء اللہ گناہ چھوڑنے میں اللہ تعالیٰ معاون ومددگار بھی ہوں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(اليمين بالله ثلاثة أنواع)....

ومنعقدة، وهو أن يحلف على أمر في المستقبل أن يفعله، أو لا يفعله، وحكمها لزوم الكفارة عند الحنث كذا في الكافي".

(كتاب الأيمان، ج:2، ص:52، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وهي أحد ثلاثة أشياء إن قدر عتق رقبة يجزئ فيها ما يجزئ في الظهار أو كسوة عشرة مساكين لكل واحد ثوب فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة أو إطعامهم والإطعام فيها كالإطعام في كفارة الظهار هكذا في الحاوي للقدسي.فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات".

(كتاب الأيمان، ج:2، ص:61، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144308102023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں