بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسم کھانے کے ارادے سے مسجد میں آنے سے قسم منعقد ہوجائے گی یا نہیں؟


سوال

میرے بیٹے کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی، ولیمہ والے دن دلہن نے اپنے بہنوئی کے ساتھ اکیلے تصویر کھنچوائی، جب لڑکے کے گھر والوں کو پتا لگا اور خود لڑکی نے بھی بتایا کہ میری بہن نے اپنے شوہرکو میرے ساتھ بٹھا کر تصویر کھینچی ہے، تو گھر میں کافی ہنگامہ برپا ہوا، جس کے بعد لڑکی اپنے والدین کے گھر چلی گئی، وہاں جاکر اس کا بیانیہ بدل گیا اور وہ یہ کہنے لگی کہ میں نے کوئی تصویر نہیں کھنچوائی ہے، انہوں نے مجھ پر دباؤ ڈالا تو میں نے مان لیا۔

لڑکے اور لڑکی کے گھر والوں نے بیٹھ کر کافی بار مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ مسئلہ حل نہ ہوا، بالآخر لڑکی کے باپ نے کہا کہ معاملات درست نہیں ہوپارہے، اس لیے لڑکا، ہماری بیٹی کو طلاق دے دے، لیکن اس کے ساتھ ہی پہلے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اس بات پر قسم بھی کھائے کہ لڑکی نے تصویر کھنچوائی ہے، اور وہ تصویر اصلی تصویر ہے، اگر یہ قسم کھانے کے بعد طلاق دے دے، تو میں مہر معاف کردوں گا۔

اس بات پر لڑکے والے راضی ہوگئے اور وضو وغیرہ کرکے مسجد میں قسم کھانے آگئے اور قرآن ہاتھ میں اٹھایاہی تھا کہ  اسی وقت لڑکی کے باپ نے ایک شرط یہ بھی لگائی کہ لڑکے والے، لڑکی کے بہنوئی کو معاف بھی کریں گے، اس بات کو لڑکے والوں نے تسلیم نہیں کیا؛ کیوں کہ اسی کی وجہ سے طلاق کی نوبت آئی تھی، تو لڑکی کے باپ نے کہا کہ پھر قسم کھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

1:اب سوال یہ ہے کہ لڑکے والے چوں کہ قسم کھاکر طلاق دینے پر راضی ہوگئے تھے اور اسی واسطے وضوء کرکے مسجد میں آگئے تھے اور قرآن بھی اٹھالیاتھا، لیکن لڑکی کے باپ نے خود ہی قسم کھانے سے منع کردیاتھا، تو صرف ان افعال سے قسم منعقد ہوگئی ہے یانہیں اور اس لڑکی کو طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

2:نیز اگر طلاق ہوگئی ہے تو لڑکی کا مہر لڑکے کے باپ کے کہنے کے مطابق معاف ہوچکا ہے یا نہیں؟

3:قرآن ہاتھ میں اٹھانے کا کوئی کفارہ وغیرہ تو لازم نہیں ہے؟

جواب

1:بصورتِ مسئولہ اگر لڑکے والے قسم کھانے اور طلاق دینے کے ارادے سے وضوء کرکے مسجد میں آگئے تھے، لیکن لڑکی کے باپ کی اضافی شرط کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے باقاعدہ قسم نہیں کھائی تھی اور نہ ہی منہ سے یا لکھ کر طلاق دی تھی، تو صرف مسجد میں آنے اور قرآن اٹھانے سے نہ قسم منعقد ہوئی ہے  اور نہ ہی طلاق واقع ہوئی ،نکاح حسب سابق برقرار ہے۔

2:چوں کہ لڑکا صرف طلاق کے ارادے سے مسجد میں آیاتھا، حقیقتاً اس نے طلاق نہیں دی ہے؛ اس لیے لڑکی کا مہر بدستور لڑکے کے اوپر لازم ہے۔

3:صرف قرآن ہاتھ میں اٹھانے سے قسم منعقد نہیں ہوتی، نہ ہی اس کا کوئی کفارہ لازم ہوتا ہے۔

بدائع الصنائع   میں ہے:

"وأما بيان ركن الطلاق فركن الطلاق هو اللفظ الذي جعل دلالة على معنى الطلاق لغة وهو التخلية والإرسال ورفع القيد في الصريح وقطع الوصلة ونحوه في الكناية أو شرعا وهو إزالة حل المحلية في النوعين أو ما يقوم مقام اللفظ أما اللفظ فمثل أن يقول في الكناية: أنت بائن أو أبنتك أو يقول في الصريح أنت طالق أو طلقتك وما يجري هذا المجرى ... وأما الذي يقوم مقام اللفظ فالكتابة والإشارة."

(ص:٩٨، ج:٣، کتاب الطلاق، فصل فی بیان رکن الطلاق، ط: دار الكتب العلمية)

حاشية ابن عابدين   میں ہے:

"(اليمين) لغة القوة وشرعا (عبارة عن عقد قوي به عزم الحالف على الفعل أو الترك) فدخل التعليق فإنه يمين شرعا إلا في خمس مذكورة في الأشباه فلو حلف لا يحلف حنث بطلاق وعتاق وشرطها الإسلام والتكليف وإمكان البر وحكمها البر أو الكفارة وركنها اللفظ المستعمل فيها."

(ص:٧٠٢، ج:٣، كتاب الأيمان، ط: ايج ايم سعيد)

الفتاوي الهندية   میں ہے:

"(الفصل الثاني فيما يتأكد به ‌المهر والمتعة) ‌والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو ‌مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق."

(ص:٣٠٣، ج:١، کتاب النکاح، الباب السابع، الفصل الثانی، ط: دار الفکر، بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507102236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں