بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الاول 1446ھ 08 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قسم کھانا اور اس پر طلاق کو معلق کرنا


سوال

1۔میں نے دکان نہ جانے کی قسم کھائی اور یہ الفاظ کہے"خدا کی  قسم میں دکان نہیں جاؤں گا،اگر میں دکان گیا تو میری بیوی کو طلاق "،مجھے بالکل معلوم نہیں تھاکہ اس طرح کہنے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے،اس کے بعد  میں دکان چلا گیا،تو اب صورت میں میری قسم اور طلاق کا کیا حکم ہے؟

2۔میں نے کفارہ کے طور پر ایک فقیر کو 2000روپے بھی ادا کردیے ہیں،تو کیا کفارہ ادا ہوگیا ہے یا نہیں؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں  سائل نے جب یہ الفاظ کہے " خدا کی قسم میں دکان نہیں جاؤں گا،اگر میں دکان گیا تو میری بیوی کو طلاق "تو ان الفاظ سے قسم بھی منعقد ہوگئی تھی،اور طلاق بھی معلق ہوگئی تھی،لہذا جب سائل اس قسم کھانے کے بعد دکان پر چلا گیا تو وہ اپنی قسم میں حانث ہوگیااور اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی بھی واقع ہوگئی،سائل عدت(جو حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواری ہے) میں  اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے،رجوع کرنے کی صورت میں سائل کو آئندہ کے لیےدو  طلاق کا اختیار ہوگا،اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا،دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نیا مہر مقرر کرکے شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا،باقی قسم توڑنے کی وجہ سے سائل پر کفارہ ادا کرنا لازم ہے،اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دووقت کا کھانا کھلایا جائے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کے بقدر گندم (پونے دو كلو)یا اس کی قیمت دے دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا دےدےاور اگر  کوئی  شخص   نہ  کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو وه مسلسل تین روزے رکھے ۔

2۔  اگر کفارہ رقم کی صورت میں ادا کیا جائے توایک ہی دن میں ایک فقیر کو  کفارہ کی تمام رقم دینا درست نہیں،  تاہم اگر ایک ہی فقیر کو دینا ہوتو  دس دن تک ایک ایک صدقۃا الفطر کی رقم ادا کرنے کے بعد کفارہ ادا ہوجائے گا،لہذاصورتِ مسئولہ میں  ایک ہی فقیر کو ایک ہی دن میں 2000 روپے دینے سےسائل کا  کفارہ ادا نہیں ہوا،البتہ ایک دن کی ادئیگی ہوگئی ہے،بقیہ نو دنوں کی ادائیگی  باقی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وکفارته.. تحریر رقبة أو إطعام عشرۃ مساکین... (أوکسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن)..... وإن عجز عنها وقت الأداء صام ثلاثة أیام ولاء."

(‌‌كتاب الأيمان، ج:3، ص:725، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لو دفع طعام عشرة مساكين وذلك خمسة أصوع إلى مسكين واحد في عشرة أيام كل يوم نصف صاع، أو غدى مسكينا واحدا أو عشاه عشرة أيام أجزأ عندنا....۔.وأما إذا دفع طعام عشرة مساكين إلى مسكين واحد في يوم واحد دفعة واحدة أو دفعات فلا رواية فيه، واختلف مشايخنا: قال بعضهم: يجوز.وقال عامة مشايخنا: لا يجوز إلا عن واحد؛ لأن ظاهر النص يقتضي الجواز على الوجه الذي بينا إلا أنه مخصوص في حق يوم واحد."

(كتاب الكفارات، فصل في شرط جواز كل نوع، ج:5، ص:104، ط:دار الكتب العلمية) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو أعطى مسكينا واحدا كله في يوم واحد لا يجزيه إلا عن يومه ذلك وهذا في الإعطاء بدفعة واحدة وإباحة واحدة من غير خلاف أما إذا ملكه بدفعات فقد قيل يجزيه، وقيل: لا يجزيه إلا عن يومه ذلك وهو الصحيح كذا في التبيين."

(کتاب الطلاق، الباب العاشر في الكفارة، ج:1، ص:513، ط:دار الفكر)

وفيه ايضاً:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ج:1، ص:420، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں