بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسم کے لفظ کو بگاڑ کر قسم کھانے کا حکم


سوال

کیا لفظِ قسم کو بگاڑ کر قسم کھانے سے قسم منعقد ہوگی؟ جیسے قسم کو قَسَّم تلفظ کرکے قسم کھاۓ جیسے قَسَّم خدا کی فلاں کام نہیں کروں گا رہنمائی فرمائیں؟

جواب

اگر کوئی شخص   قصداً  قسم(سین پر زبر کے ساتھ ) کے  بجائے قسّم (سین پر تشدید کے ساتھ) کا لفظ استعمال کرے اور اس سے اس کا ارادہ قسم کھانے کا نہ ہو ،اور اسی لیے اس نے یہ غلط لفظ استعمال کیا ہو تو اس سے قسم منعقد نہیں ہوگی،  لیکن دھوکا دہی یا حق چھپانے کی نیت سے یا "اللہ کے نام کی قسم" کو معمولی سمجھتے ہوئے اس طرح کرنا روا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا نام انتہائی مقدس اور باعظمت ہے، اللہ تعالیٰ کا پاک نام لے کر ارادۃً قسم کے الفاظ غلط کہنا اللہ تعالیٰ کے نام کی بے ادبی ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص قسم کھانے کے ارادے سے یہ جملہ کہہ دے، یا اس علاقے کا عرف اس طرح ہوگیا ہو کہ الفاظ کی ادائیگی میں "قسَم" (سین پر زبر)اور "قسّم" (سین پر تشدید)میں فرق نہ کیا جاتاہو، اور وہ لوگ اس لفظ سے قسم کا ہی ارادہ کرتے ہوں، یا ناواقف شخص قسم کھانے کے ارادے سے قسَم کو قسّم کہہ دیتا ہو  تو اس سے  قسم معتبر ہوجائے گی۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

" (وألفاظ مصحفة كتجوزت) لصدوره لا عن قصد صحيح بل عن تحريف وتصحيف، فلم تكن حقيقةً ولا مجازاً لعدم العلاقة بل غلطاً فلا اعتبار به أصلاً، تلويح، نعم لو اتفق قوم على النطق بهذه الغلطة وصدرت عن قصد  كان ذلك وضعاً جديداً فيصح، به أفتى أبو السعود. وأما الطلاق فيقع بها قضاء كما في أوائل الأشباه .

(قوله: وألفاظ مصحفة) من التصحيف، وهو تغيير اللفظ حتى يتغير المعنى المقصود من الوضع كما في الصحاح، وفي المغرب التصحيف أن يقرأ الشيء على خلاف ما أراده كاتبه أو على غير ما اصطلحوا عليه". 

(کتاب الأیمان: ج:3، ص:18، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

" وركنها: اللفظ المستعمل فيها وهل يكره الحلف بغير الله تعالى؟ قيل: نعم للنهي وعامتهم لا وبه أفتوا لا سيما في زماننا، وحملوا النهي على الحلف بغير الله لا على وجه الوثيقة كقولهم بأبيك ولعمرك ونحو ذلك عيني".

(کتاب الأیمان: ج:3، ص: 702، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں