بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسم کھانے کے بعد کچھ رقم شکرانہ کے نام پر دینے کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں فریقین میں سے ایک نے کسی مسئلے پرقسم کھائی یعنی جرگے والوں نے ان کو دی اب جو قسم کھانے والا ہے اس نے 500روپے بطور شکرانہ(جسے ہمارے علاقے میں شکرانہ کہاجاتا ہے بظاہر لوگوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قسم کھانے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہ ہو اور ایک قسم کا عوض دیتے ہیں قرآن پر قسم کھانے کا)کسی طالب علم کو دیے تو ان پیسوں کے دینے اور لینے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

 واضح رہے کہ قسم کی تین اقسام ہیں(1) یمین لغو   (2) یمین غموس   (3)یمین منعقدہ

(1)یمین لغو:  قسم کھانا ماضی یا حال کے کسی معاملے پر اپنے آپ کو سچا گمان کرتے ہوئے حالانکہ وہ  امر اس کے خلاف ہو، اس میں کفارہ لازم نہیں آتا ہے اور  اس پر مؤاخذہ نہ ہونے کی امید  ہے۔

(2)یمینِ غموس:ماضی کے کسی قول یا فعل پر جھوٹی قسم کھانا،اس صورت میں قسم کھانے والا سخت گناہ گار ہوگا اور اس پر توبہ کرنا لازم ہےاور اگر اس کے اس قسم سے کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی تلافی اس پر لازم ہے،باقی کفارہ نہیں ہے۔

(3)یمینِ منعقدہ:مستقبل میں کسی قول یا فعل کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانا، اس صورت میں حانث ہونے والے پر کفارہ لازم ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں قسم کھانے کے بعد قسم کھانے والے کا کسی کو شکرانہ کے نام پر کچھ رقم دینا اور اس کو لازم سمجھنا اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،اس سے اجتناب کیاجائے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے

"فكذلك ما يوجبه العبد على نفسه وهذا؛ لأن صحة النذر باعتبار معنى القربة وذلك في التزام الصدقة لا في تعيين المكان والزمان والمسكين والدرهم."

(کتاب الصوم، کتاب نوادر الصوم، ج:3،ص:129، ط: مطبعۃ السعادۃ مصر)

و فیہ ایضاً:

"وإنما أراد أن اليمين بالله تعالى تنقسم في أحكامها ثلاثة أقسام: يمين يكفر، ويمين لا يكفر، ويمين يرجوا أن لا يؤاخذ الله تعالى بها صاحبها، فأما الذي يكفر فهو يمين على أمر في المستقبل لإيجاد فعل، أو نفي فعل."

(کتاب الأیمان، ج:8، ص:127، ط:مطبعۃ السعادۃ مصر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(اليمين بالله ثلاثة أنواع) غموس، وهو الحلف على إثبات شيء، أو نفيه في الماضي، أو الحال يتعمد الكذب فيه فهذه اليمين يأثم فيها صاحبها، وعليه فيها الاستغفار، والتوبة دون الكفارة .ولغو، وهو أن يحلف على أمر في الماضي، أو في الحال، وهو يظن أنه كما قال:، والأمر بخلافه بأن يقول: والله قد فعلت كذا، وهو ما فعل، وهو يظن أنه فعل، أو: ما فعلت كذا، وقد فعل، وهو يظن أنه ما فعل، أو رأى شخصا من بعيد فقال: والله إنه لزيد، وظنه زيدا، وهو عمرو، أو طائرا فقال: والله إنه لغراب، وظنه غرابا، وهو حدأة فهذه اليمين نرجو أن لا يؤاخذ بها صاحبها، واليمين في الماضي إذا كان لا عن قصد لا حكم له في الدنيا، والآخرة عندنا.ومنعقدة، وهو أن يحلف على أمر في المستقبل أن يفعله، أو لا يفعله، وحكمها لزوم الكفارة عند الحنث كذا في الكافي."

(کتاب الأیمان، الباب الاول فی تفسیر الأیمان شرعاً و  رکنہا و شرطہا و حکمہا، ج:2، ص:52، ط: دارالفکر بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أن الفعل متى دار بين السنة والبدعة كان ترك البدعة واجبا وتحصيل الواجب أولى من تحصيل السنة."

(كتاب الصلوة، فصل الکلام فی مسائل السجدات، ج:1، ص:250، ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں