بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسم کاکفارہ اور طلاق نامہ بنانے سے طلاق کاحکم


سوال

میں  یو ایس  اے میں رہتاہوں، میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتاہوںاور ابھی فروری 2022ء میں میری ایک بیٹی ہوئی ہے ، میرے سسرال والے میرے گھرکے معاملات  میں بہت  دخل اندازی کرتے تھے، میرا اپنی بیوی سے لڑائی جھگڑا تو ہوتارہتاتھا، یو ایس اے آنے کے بعد سے وہ بے انتہابدتمیز ہوگئی ہے، میں نے اس کے والدین سے بات کی کہ آپ لوگ ہمارے گھر کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں، تواُنہوں نےجواب میں مجھے بہت دھمکیاں دیں اور  مجھے پریشان کرنے کے لیےدو دفعہ پولیس میرے گھر بھیج دیے، میں نارمل سا انسان ہوں ،مگر میری بیوی کو میں شروع سے ناپسند ہوں، اُس نے مجھے صبح وشام ذلیل کرنے کامعمول بنایاہواہے، میں یہاں  کے کلچرکے حساب سے آزادی کوپسند نہیں کرتاہوں اورمیری بیگم کو چھوٹے کپڑے  پہننے اور  کلبز وغیرہ میں جانے کاشوق ہے، میں نے اس بارے میں اُس کے والدین سے بات کی، تو اُنہوں نے اپنی بیٹی کوبلاکر کہاکہ تمہیں اپنی شوہر کی بات ماننے کی کوئی ضرورت نہیں،جیسے تمہارا دل چاہے کیاکرو،اگر یہ کچھ بولیں تو اس سے طلاق لے کر الگ ہوجاؤ، اپنی جاب کرو اور بچی کاخرچہ بھی اس سے لو، میں 4/5مہینے بہت اذیت میں رہاہوں ۔ میری بیگم والدین کے گھر کے چلی گئی تھی اور مجھ سے طلاق لیناچاہتی تھی، میں نے ہاتھ جوڑ کر اس کومنایا اوراُسے اپنے گھر واپس لے آیا ،کیوں  کہ مجھے اپنی بیٹی سے بھی بہت محبت ہے۔ 

میری بیوی کی خواہش ہے کہ میں اس کو اور اس کی فیملی کو سپورٹ کروں، میری بہن اور والدہ بھی میرے ساتھ رہتی ہیں، دو مہینے پہلے ہم پاکستان آئے،تو میری بیوی نے مجھ سے قسم لی کہ میں اب اپنے ساتھ اس کویو ایس اے لے کر جاؤں گا، اور یہ بھی قسم لی کہ اپنی والدہ اور بہن کو اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا، لیکن یہاں یوایس اے میں رہائش نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنے ساتھ کسی کوبھی نہیں لے کر آیا، اور بیوی کی طرف سے صبح وشام مجھے بلیک میل کیاجاتاہے ، مختلف جھوٹے ڈاکومنٹس بناتی ہیں اور یہاں آکر مجھ سے طلاق لے کر مجھے پریشان کرناچاہتی ہیں اور یہاں کاسسٹم اور بھی زیادہ مشکل ہے؛ اس لیے میں نے  اپنی بیوی کی نیت کو دیکھتے ہوئےابھی سےطلاق نامہ بنوایاہے،لیکن میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی ، طلاق نامہ اس لیے بنایاکہ اگر میری بیوی یہاں آجاتی ہے اور پھر وہ اس طرف جاتی ہے اور حد سے زیادہ پریشان کرتی ہے تو پھر میں اس کو طلاق دے دوں گا، اب میرے دو سوال ہے:

1۔میں نے بیوی کے کہنے پر جوقسم کھائی تھی کہ جب میں یو ایس اے آؤں گاتو  اس کو اپنے ساتھ لے آکر آؤں گا، اب میں اس کواپنے ساتھ نہیں لے کر آسکا، تو اس قسم کاکوئی کفارہ مجھے اداکرناہوگایانہیں؟

2۔میں نے اپنی بیوی کے ارادے کو دیکھتے ہوئے ابھی سے جو طلاق نامہ لکھوایاہے ، کیااس سے طلاق ہوگی یانہیں؟جب کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی اور میں نے اس پر دستخط بھی نہیں کیاہے۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے یہ قسم کھائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ یو ایس اے لے کر جائے گااور وہ اُسے  اپنے ساتھ یو ایس اے  لے  کر نہیں گیاتو سائل کی قسم ٹوٹ گئی ہے اور  سائل پر کفارہ اداکرنالازم ہے ،قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق اس کی جوقیمت ہو وہ دے دے ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (ساڑھے تین کلو یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق اس  کی قیمت) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے اور اگر   کھاناکھلانے اور کپڑاپہنانے پر قدرت نہ ہوتو مسلسل تین دن روزے رکھے۔

2۔ جب سائل نے طلاق نامہ بنوادیاہے تو اس سے اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوچکی ہے،باقی کون سی اور کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں ؟اس کے جاننے کے لیے طلاق نامہ کی کاپی ارسال کیجیے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ومنعقدة، وهو أن يحلف على أمر في المستقبل أن يفعله، أو لا يفعله، وحكمها لزوم الكفارة عند الحنث كذا في الكافي."

(كتاب الأيمان،الباب الأول في تفسيرها شرعا وركنها وشرطها وحكمها، 2/52، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وكفارته) هذه إضافة للشرط لأن السبب عندنا الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين)كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام(ولو أدى الكل) جملة أو مرتبا ولم ينو إلا بعد تمامها للزوم النية لصحة التكفير (وقع عنها واحد هو أعلاها قيمة، ولو ترك الكل عوقب بواحد هو أدناها قيمة) لسقوط الفرض بالأدنى (وإن عجز عنها) كلها (وقت الأداء) عندنا، حتى لو وهب ماله وسلمه ثم صام ثم رجع بهبة أجزأه الصوم مجتبى. قلت: وهذا يستثنى من قولهم الرجوع في الهبة فسخ من الأصل (صام ثلاثة أيام ولاء)."

(كتاب الأيمان، مطلب ‌كفارة ‌اليمين، 3 /725-727، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"وإن شاء أطعم عشرة مساكين) كالإطعام في كفارة الظهار وهي نصف صاع من بر أو صاع من تمرأو شعير ذكره الكرخي بإسناده إلى عمر - رضي الله عنه - قال: صاع من تمر أو شعير ونصفه من بر.وبإسناده إلى علي - رضي الله عنه - قال: كفارة اليمين نصف صاع من حنطة. وبسنده إلى الحسن - رضي الله عنه - قال: يغديهم ويعشيهم. وبإسناده إلى مجاهد قال: كل كفارة في القرآن نصف صاع من بر لكل مسكين."

(كتاب الأيمان، فصل في الكفارة، 80،81/5، ط: دارالفکر)

وفیہ ایضًا:

"ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب."

(کتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، 246/3، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں