بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قصائی سے آئندہ ایک سال کے لیے کھالیں خریدنے کا معاہدہ کرنا


سوال

تاجر حضرات قصائی کے پاس جاکر اس طرح معاملہ کرتے ہیں کہ مثلاً: آج بتاریخ 20 جون 2023 سے لے کر آئندہ سال 20 جون 2024 تک ہمارے درمیان اس شرط پر کھال خریدنے کا معاملہ طے ہوگیا کہ آئندہ سال اسی دن تک جتنے بھی جانور آپ ذبح کرلیں گے، ان سب کی کھالیں میری ہوگئیں  اور ہر ایک کھال کی قیمت 1000 روپے ہوگی، جس پر قصائی تاجر کے ساتھ موافقت کرلیتا ہے، لیکن اس شرط پرکہ اگر تم معاہدے کے شروع میں تین لاکھ روپے مجھے بیعانہ کے طور پر دوگے تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں، جس کے بعد تاجر حضرات قصائی کو سال کے شروع سے تین لاکھ روپے بیعانہ کے طور پر دے دیتے ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ معاملہ کرنا درست ہے؟ اسی طرح قصائی کے معاہدہ کے شروع میں تین لاکھ روپے لینا کیسا ہے؟ جسے قصائی لینے کے بعد اپنے استعمال میں بھی لانا شروع کردیتا ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں تاجر اور قصائی کے درمیان معاہدے کی حیثیت بیع کی نہیں،  بلکہ وعدہ بیع کی ہوگی اور بیع اس وقت منعقد ہوگی جب قصائی کھال حوالہ کرے۔اس وقت تعاطی سے بیع ہوجائے گی۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان» .

قال الطيبي - رحمه الله - أي البيع الذي يكون فيه العربان في النهاية هو أن يشتري السلعة ويدفع إلى صاحبها شيئا على أنه إن أمضى البيع حسب وإن لم يمض البيع كان لصاحب السلعة ولم يرتجعه المشتري، وهو بيع باطل عند الفقهاء لما فيه من الشروط والغرر."

(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، ج:5،  ص:1936، ط:دار الفكر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم كبيع نتاج النتاج والحمل كذا في البدائع وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه فلا ينعقد بيع الكلإ ولو في أرض مملوكة له ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم."

(كتاب البيوع،  ج:3، ص:2، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں