بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

قریہ صغیرہ اور دیہات والوں کا جمعہ کے لیے قریبی شہر جانا اور گاؤں کی پنج وقتہ نمازوں میں آباد رہنے والی مسجد کا جمعہ کے دن ظہر میں ویران رکھنا درست ہے یا نہیں ؟


سوال

 کسی قریۂ صغیرہ کی مسجد میں پانچ وقت نماز باجماعت ادا ہوتی ہے، اس قریۂ صغیرہ سے کچھ فاصلہ پر اصل آبادی اور شہر ہے جہاں پر نماز جمعہ ادا ہوتی ہے،  اس قریۂ صغیرہ میں احناف کی رو سے نماز جمعہ ادا کرنا جائز نہیں تو وہ سارے لوگ اپنے قریۂ صغیرہ کی مسجد چھوڑ کر شہر میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے جاتے ہیں۔اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ قریۂ صغیرہ کے سارے لوگوں کا شہر کی مسجد میں جانے سے جب ان کی بستی میں نمازِ ظہر جماعت سے ادا نہ ہو تو ایسا کرنے سےکیا اس بستی کے سارے لوگ گناہ گار ہوں گے؟

بعض مفتیان کرام اس بارے میں یہ فتویٰ دے رہے ہیں کہ چھوٹے گاؤں (قریۂ صغیرہ) میں جہاں جمعہ جائز نہیں ہے ایسے گاؤں کے لوگ اپنے گاؤں میں جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت پڑھیں، اُن پر لازم نہیں کہ اپنے گاؤں سے دور کسی قصبہ یا شہر میں جاکر نماز جمعہ ادا کریں، لیکن اگر گاؤں کے لوگ جمعہ کو اپنے گاؤں میں نماز ظہر نہ پڑھیں اور قصبہ یا شہر میں جاکر نماز جمعہ ادا کرلیں تو وقتی فریضہ ادا ہو جائے گا اور ظہر ساقط ہو جائے گی۔

جبکہ دیگر مفتیان کرام کا فتویٰ یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک قریۂ صغیرہ کے مسلم باشندوں پر نمازِ جمعہ فرض نہیں، جمعہ کے روز نمازِ ظہر فرض ہے۔ اس لئے اگر قریۂ صغیرہ کے سارے مسلمان اپنی مسجد میں باجماعت نمازِ ظہر ادا کرنے کے بجائے نمازِ جمعہ پڑھنے کےلئے شہر کی جامع مسجد وغیرہ میں چلے جائیں اور چند نمازی بھی اپنی بستی میں جماعتِ ظہرادا کرنے کیلئے باقی نہ رہیں تو اس صورت میں اس بستی کی مسجد کاوقتی فریضہ (نمازِ ظہر) اور حقِ مسجد (جماعتِ ظہر) فوت کرنے کا گناہ ہو گا۔ اس لئے جمعہ کے دن وہاں نمازِ ظہر ادا کرنے کےلئے کچھ لوگوں کو ضرور رہنا چاہیے، یہی منشاء شریعت ہے۔

مندرجہ بالا دونوں موقف میں کتب ِ احناف اور فقہی دلائل کی روشنی میں کے کون سا موقف راجح ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ گاؤں کے تمام لوگ قریبی قصبہ کبیرہ یا شہرمیں جمعہ کی ادائیگی کے لیے چلے جاتے ہوں اور پیچھے پنچ وقتہ نمازوں میں آباد رہنے والی مسجد میں جمعہ کےدن کوئی بھی نماز پڑھنے نہ آئے،تو یہ طرزِ عمل شرعاً درست نہیں ہے۔ کیوں کہ گاؤں یا قریہ صغیرہ کےلوگوں کے لیے جمعہ کا دن بھی عام دنوں کی طرح ہی ہے، اور جس طرح عام دنوں میں ظہر کے وقت مسجد میں باجماعت ظہر ادا کرنا ضروری ہے، اسی طرح جمعہ کے دن بھی گاؤں کی مسجد میں نمازِ ظہر باجماعت ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز اگر جمعہ کے دن کچھ نہ کچھ ایسے لوگ گاؤں میں ہی موجود ہوتے ہوں جو  ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے اہل ہوں، تو ظہر میں مسجد کی ویرانی کے وہی ذمہ دار ہوں گے، جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانے والے گناہ گار نہ ہوں گے۔

تاہم ضروری ہے کہ اِس معاملہ کو فتنہ و فساد کی نذر کرنے کے بجائے حکمت اور باہمی مشاورت سے حل کرلیا جائے، اور ایسی ترتیب بنالی جائے جس میں شہر میں جمعہ کے لیے جانے کے ساتھ ساتھ  گاؤں کی مسجد میں نماز ظہر باجماعت ادا ہوسکے، اور مسجد کا  حق بھی ادا ہوتا رہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ قریہ صغیرہ اوردیہات وغیرہ میں عام دنوں کی طرح جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہےاور شہر کی مسجد میں جمعہ کے لیے جانا استحبابی امر ہے۔ نیز علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ثواب کی زیادتی کی خاطر دوسری مسجد جائے اور اِس کی وجہ سے اُس کے محلہ کی مسجد کا ویران ہونا لازم آئے تو اِس شخص کے لیے اپنی مسجد میں ہی نماز پڑھنا افضل ہے۔

اس کے علاوہ دورِ رسالت میں مدینہ منورہ کے قرب و جوار میں موجود چھوٹےچھوٹے دیہات  اور قصبے جہاں جمعہ نہیں ہوتا تھا وہاں کے لوگ مسجد نبوی میں ادائیگی جمعہ کے لیے باری باری آیا کرتے تھے،لہذا باریوں کے اعتبار سے آمدورفت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے علاقوں کی مساجد کو بھی آباد رکھا کرتے تھے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت:‌كان ‌الناس ‌ينتابون يوم الجمعة من منازلهم والعوالي."

(كتاب الجمعة، باب: من أين تؤتى الجمعة، وعلى من تجب، ج؛1، ص:306، رقم الحديث:860، دار ابن كثير)

ترجمہ:"نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : لوگ جمعہ کے دن  نماز پڑھنے کے لیے اپنے گھروں اور اطراف مدینہ کے گاؤں سے باری باری تشریف لاتے تھے۔"

عمدۃ القاری میں ہے:

"ذكر معناه: قوله: (ينتابون الجمعة) ، أي: يحضرونها بالنوبة، وهو من الانتياب من النوبة، وهو المجيء نوبا، ويروى (يتناوبون) من النوبة أيضا. قوله: (والعوالي) جمع العالية، وهي مواضع وقرى بقرب مدينة رسول الله صلى الله عليه وسلم من جهة المشرق من ميلين إلى ثمانية أميال. وقيل: أدناها من أربعة أميال."

(كتاب الجمعة، باب: من أين تؤتى الجمعة، وعلى من تجب، ج:1، ص:198، ط:دارالفكر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"ثم في ظاهر رواية أصحابنا رحمهم الله لا يذهب شهود الجمعة، إلا على من يسكن المصر والأرباض المتصلة بالمصر حتى لا تجب على أهل السواد أن يشهدوا الجمعة سواء كان السواد قريباً من المصر أو بعيداً عنه...وجه ما ذكر في هذه ظاهر الرواية أن النبي عليه السلام وأصحابه رضوان الله عليهم أجمعين كانوا لا يأمرون أهل السواد القريبة بالحضور إلى الجمعة؛ إذ لو أمروا لاشتهر واستفاض، والمعنى فيه أن المسافر الذي في المصر لا يجب عليه حضور الجمعة لاشتغاله بأمور السفر نفياً للحرج، والحرج الذي يلحق القروي بدخول المصر أكبر من حرج المسافر فيسقط عن القروي بطريق الأولى."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:68، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قد يقال: محله فيما إذا كان فيه جماعة؛ ألا ترى أن مسجد الحي إذا لم تقم فيه الجماعة وتقام في غيره لا يرتاب أحد أن مسجد الجماعة أفضل. على أنهم اختلفوا في الأفضل هل جماعة مسجد حيه أو جماعة المسجد. الجامع؟ كما في البحر ط.

قلت: لكن في الخانية وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يذهب إليه ويؤذن فيه ويصلي وإن كان واحدا لأن ‌لمسجد ‌منزله ‌حقا عليه، فيؤدي حقه مؤذن مسجد لا يحضر مسجده أحد. قالوا: هو يؤذن ويقيم ويصلي وحده، وذاك أحب من أن يصلي في مسجد آخر. اهـ. ثم ذكر ما مر عن الفتح، ولعل ما مر فيما إذا صلى فيه الناس فيخير، بخلاف ما إذا لم يصل فيه أحد لأن الحق تعين عليه."

(كتاب الصلاة،باب الإمامة، ج:1، ص:555، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(قوله في مصر) بخلاف القرى لأنه لا جمعة عليهم فكان هذا اليوم في حقهم كغيره من الأيام شرح المنية."

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:2، ص:157، ط:سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

"کوئی شخص دوسرے محلّہ کی مسجد میں اس نیت سے جائے کہ دور جانے سے ثواب زیادہ ہوگا اور اس کے جانے کی وجہ سے اس کے محلّہ کی مسجد کی جماعت کو نقصان نہ پہنچے، تو یہ بھی جائز ہے۔ ہاں! اگر اس کے جانے سے محلّہ کی جماعت ویران ہوتی ہوتو پھر نہ جانا چاہیے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، فصل مایتعلق بتعدد الجمعۃ، ج:5، ص:179، ط:ادارۃ الفاروق)

واللہ اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144604100885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں