بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرضوں سے تنگ ہو کر خود کشی کا ارادہ کرنا اور مقروض شخص کا زکوۃ لینا


سوال

ہم کالا پل پر رہائش پذیر ہیں ، ہم سفید پوش عزت دار ہیں، ہمارا اپنا کپڑے کا کاروبار تھا، میرے ایک دوست نے میرے ساتھ کپڑے کے کاروبار میں 27 لاکھ کا فراڈ کیا تو ہمارا بہت نقصان ہوا تھا، پھر وہ غائب ہوگیا، آج تک اس کا پتہ نہیں چلا، پھر دکان میں ڈکیتی اور چوری ہوئی ،ہمارے  مکان کے ایک کے پڑوس میں ایک شخص آتش گھر مادے پیچتا تھا، وہاں سے آگ لگی تو ہمارے مکان کو بھی آگ لگی ، مکان گر گیا، ان واقعات کے بعد میرے اوپر قرضوں کا بوجھ آگیا تھا، قرض دینے والوں نے مجھے دن رات تنگ کرنا شروع کردیا، انہوں نے مجھے قرضہ ادا ئیگی کی تاخیر پر طرح طرح کی گالیاں ، دھمکیاں بھی دیں، اس دوران میں نے کوشش کر کے چند قرضہ اتارنے کی کوشش کی تھی، لیکن قرضہ زیادہ ہونے کی وجہ سے میں قرضوں کی ادائیگی سے عاجز رہا، یہاں تک کہ قرض داروں کے تنگ کرنے کی وجہ سے عید کے دن بھی گھر سے بھاگنا پڑا، اب میرے ذمہ چار لاکھ روپے سے زیادہ قرضہ کا بوجھ ہے، دن رات پریشان ہوں، قرضوں کی وجہ سے کسی وقت خودکشی کو دل چاہتا ہے، کیا میں اس صورتِ حال میں صدقہ و زکوٰۃ لے سکتا ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل چار لاکھ روپے سے بھی زیادہ کا مقروض ہے اور اس کے پاس  قرضہ کی ادائیگی کے لیے کوئی اثاثہ  نہیں  اور وہ سیدیا عباسی خاندان میں سے نہیں، تو وہ زکوٰۃ کا مستحق ہے،اس کو قرض اتارنے کے لیے زکوٰۃ دینا اور اس کے لیے  زکوٰۃ لینا جائز ہے۔

واضح رہے کہ ہر انسان کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس امانت ہوتی ہے  جس میں خیانت کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتا،اس وجہ سے خودکشی کرنا (یعنی اپنے آپ کو خود ہی مارنا) اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت کرنے  کی وجہ  سے اسلام میں حرام ہے اور  یہ ایک گناہ کبیرہ (بڑا  گناہ) ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تردى من جبل فقتل نفسه ; فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تحسى سما فقتل نفسه؛ فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن قتل نفسه بحديدة، فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا» ". متفق عليه.

(مرقاة المفاتیح، كتاب القصاص : رقم الحديث:3453، ج:6، لص:2262، ط:دارالفكر)

ترجمہ : ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا۔“

لہٰذا سائل کا خود کشی کرنے کا ارادہ کرنا ہرگز درست نہیں ہے، اس پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

''لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير، أو دراهم، أو سوائم، أو عروضاً للتجارة، أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه، وثيابه، وخادمه، ومركبه، وسلاحه، ولا يشترط النماء؛ إذ هو شرط وجوب الزكاة، لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي، وآل عباس، وآل جعفر، وآل عقيل، وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ، ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة، والنذر، والعشر، والكفارة، فأما التطوع : فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي."

(کتاب الزکوة ،باب المصرف : ج:1،ص189، ط: رشیدیه)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"قال الطيبي رحمه الله: والظاهر أن المراد من هؤلاء الذين فعلوا ذلك مستحلين له وإن أريد منه العموم، فالمراد من الخلود والتأبيد المكث الطويل المشترك بين دوام الانقطاع له، واستمرار مديد ينقطع بعد حين بعيد لاستعمالهما في المعنيين، فيقال: وقف وقفا مخلدا مخلدا مؤبدا، وأدخل فلان حبس الأبد، والاشتراك والمجاز خلاف الأصل فيجب جعلهما للقدر المشترك بينهما للتوفيق بينه وبين ما ذكرنا من الدلائل."

( كتاب القصاص : ج:6، ص:2262، ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں