بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرضہ میں جتنی رقم دی جائے اس سے زیادہ وصول کرنا جائز نہیں ہے


سوال

میں نے 2011 میں اپنے والد سے 70 لاکھ روپے لیے تھے روپے کی صورت میں، اور طے یہ ہوا کہ یہ 70 لاکھ میری جائیداد میں سے کاٹ لیے جائیں گے (یعنی والد صاحب جب اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کریں گے، اس وقت جتنے میرے حصے میں آئیں گے، اس میں سے 70 لاکھ روپے کاٹ لیے جائیں گے۔

اب 2022 میں والد صاحب حیات ہیں اور وہ اپنی جائیداد کی تقسیم کر رہے ہیں  اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ  اس وقت کے جو  70 لاکھ تھے، وہ آج کے لحاظ سے 15000000 روپے بنتے ہیں، تو میں  15000000 روپے کاٹوں گا۔

اب میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ والد صاحب کو کتنے پیسے کاٹنے چاہیے؟ 70 لاکھ یا 15000000 ؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرضہ میں جو چیز لی جائے شرعاً اسی کا مثل لوٹانا لازم ہوتا ہے، خواہ اس کی قیمت بڑھ گئی ہو یا کم ہوگئی ہو، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب والد صاحب اپنی جائیداد تمام اولاد کے درمیان تقسیم کر رہے ہیں اور اسی جائیداد میں سے بیٹی کے حصے میں سے بیٹی کو  قرض دی ہوئی رقم کاٹ  کر اپنا قرضہ وصول کرنا چاہتے ہیں، تو والد کو 70 لاکھ روپے کی کٹوتی کرنا جائز ہے، اس سے زیادہ کی کٹوتی کرنا جائز نہیں، اس سے زائد رقم بیٹی کو دی جائے جس طرح دوسری اولاد کو دے رہے ہیں۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه.

وفي الشامية تحته:

وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه، وكذلك لو قال أقرضني عشرة دراهم غلة بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج:5، ص:162، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں