میں نے 2011 میں اپنے والد سے 70 لاکھ روپے لیے تھے روپے کی صورت میں، اور طے یہ ہوا کہ یہ 70 لاکھ میری جائیداد میں سے کاٹ لیے جائیں گے (یعنی والد صاحب جب اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کریں گے، اس وقت جتنے میرے حصے میں آئیں گے، اس میں سے 70 لاکھ روپے کاٹ لیے جائیں گے۔
اب 2022 میں والد صاحب حیات ہیں اور وہ اپنی جائیداد کی تقسیم کر رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس وقت کے جو 70 لاکھ تھے، وہ آج کے لحاظ سے 15000000 روپے بنتے ہیں، تو میں 15000000 روپے کاٹوں گا۔
اب میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ والد صاحب کو کتنے پیسے کاٹنے چاہیے؟ 70 لاکھ یا 15000000 ؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔
واضح رہے کہ قرضہ میں جو چیز لی جائے شرعاً اسی کا مثل لوٹانا لازم ہوتا ہے، خواہ اس کی قیمت بڑھ گئی ہو یا کم ہوگئی ہو، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب والد صاحب اپنی جائیداد تمام اولاد کے درمیان تقسیم کر رہے ہیں اور اسی جائیداد میں سے بیٹی کے حصے میں سے بیٹی کو قرض دی ہوئی رقم کاٹ کر اپنا قرضہ وصول کرنا چاہتے ہیں، تو والد کو 70 لاکھ روپے کی کٹوتی کرنا جائز ہے، اس سے زیادہ کی کٹوتی کرنا جائز نہیں، اس سے زائد رقم بیٹی کو دی جائے جس طرح دوسری اولاد کو دے رہے ہیں۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه.
وفي الشامية تحته:
وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه، وكذلك لو قال أقرضني عشرة دراهم غلة بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها."
(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج:5، ص:162، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144401100926
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن