بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرضہ اتارنے کے لیے سودی قرضہ یا زکات لینے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب نے قرض لیا تھا جو کہ اب مجھے واپس کرنا ہے،  الحمداللہ میں اپنی آمدنی سے گھر کا نظام چلا رہا ہوں،  لیکن سارا قرض ایک ساتھ دینے سے قاصر ہوں،  کیا اس صورت میں سود پر قرض لے سکتا ہوں یا زکوۃ لے کر ان پیسوں سے قرض ادا کر سکتا ہوں؟

جواب

   جس  طرح  سودی قرضہ دینا حرام ہے  اسی  طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے، اور حدیث شریف میں سود لینے اور دینے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے، اس لیے آپ کو  چاہیے کہ والد صاحب کا قرضہ اتارنے کے لیے سودی قرضہ لینے کے بجائے کوئی دوسرا  جائز متبادل راستہ (مثلاً غیر سودی قرضہ ) اختیار کریں، یعنی  ضرورت کے لیے  کسی رشتہ دار یا شناسا شخص سے غیر سودی قرض لیا جاسکتا ہے،   بندہ   اگر حرام سے بچنے  کے لیے ہمت بلند رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد  ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

البتہ اگر آپ مستحقِ زکات ہیں تو آپ کے  لیے قرضہ اتارنے کے  لیے زکات لینا بھی جائز ہوگا، اور اگر آپ مستحقِ زکات نہیں ہیں تو والد صاحب کا قرض اتارنے کی غرض سے آپ کے لیے زکات لینے کی اجازت نہیں ہوگی، والد صاحب اگر حیات ہیں تو یہ قرض ادا کرنا ان کے ذمے ہے، اور اگرسائل کے والد صاحب وفات پاچکے ہیں تو ان کے ترکے میں سے یہ قرض ادا کیا جائے گا، اور ترکے میں اگر قرض ادا کرنے کی گنجائش نہیں ہے تو ورثہ کے ذمے قرض ادا کرنا واجب نہیں ہے کہ اس کے لیے زکات وصول کی جائے، البتہ اولاد اپنے مرحوم والد کا قرض ادا کرے تو یہ مرحوم کے اخروی مواخذے سے بچانے کا ذریعہ اور اس پر احسان ہوگا۔

مستحقِ زکات سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ضروری اخراجات (مثلًا: ماہانہ اخراجات) اور آپ پر واجب ہونے والے قرض وغیرہ اور استعمال کی اشیاء (گھر، گاڑی، کپڑے، فریج، گھر کا فرنیچر وغیرہ) کے علاوہ آپ کے پاس اتنا مال یا سامان نہیں ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچتی ہو۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا } [الطلاق: 2، 3]

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکاۃ المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

      مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءا أيسرها أن ینکح الرجل أمه»."

(1/246، باب الربوا ، ط؛ قدیمی)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا". 

(14/513، باب کل قرض جر  منفعۃ، کتاب الحوالہ، ط؛ ادارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

(ومنها الغارم) ، وهو من لزمه دين، ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين. والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير كذا في المضمرات.

(كتاب الزكا ة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٨، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم كذا في السراج الوهاج.

( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں