بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرضہ دیتے وقت ایسی شرط لگانا جس میں قرض خواہ کا نفع ہو


سوال

کیا قرض کی مقدار بڑھا کے  دی جاسکتی ہے؟ میں نے اپنے بھائی سے قرض لینے کا مطالبہ کیا تھا، اور وہ مجھے قرض بلا نفع  نہیں دینا چاہتا تھا،تو میرے بھائی نے مجھے قرض دیتے وقت ایک شرط رکھی تھی کے آپ مجھے اس قرض کے بدلے اپنے گھر کا شئیر دے ،تو جب آپ کا گھر بکے گا، تو آپ مجھے اس ویلیو کے حساب سے پیسے دینگے، یعنی اگر میرے گھر کی ویلیو اس وقت 8،00،000 تھی  اور میں نے اس سے 1000 روپے کا قرض لیا تھا اور آج میرا  گھر 10،00،000 میں بکنے جارہا ہے، یعنی پہلے کی ویلیو کے حساب سے 20 فیصد اوپر، تو کیا میرا 1000 روپے کے قرض میں اسکو 20 فیصد ملا کر(1200) دینا جائز ہوگا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ ہر ایسا قرضہ،جس میں کسی شرط کی بناء پر ،قرضہ دینے والے کے لیے، کسی قسم کے نفع کا حصول ہو،تو یہ زائد رقم(یعنی جو اصل قرضہ کی رقم سے زائد ہے) سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے،اور اس کا لینا شرعاً جائز نہیں ہے،اور نہ ہی اس کا استعمال کرنا جائز ہے؛  لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے جائز نہیں کہ اپنے قرض خواہ کو قرضہ کی رقم سے زائد ادا کرے ،چاہے گھر کی ویلیو کتنی ہی بڑھ جائے۔

تاہم اگر کوئی قرضہ لینے والا (صورتِ مسئولہ میں سائل) قرضہ ادا کرتے وقت ،خود سے بغیر کسی شرط کے اپنے قرض خواہ کو (صورتِ مسئولہ میں سائل کا بھائی) کچھ زائد رقم بغیر کسی تعین کے شامل کرکے  ادا کرتا  ہے،تو یہ جائز ہے بلکہ مستحسن ہے ، شریعت مطھرہ کی تعلیم پر عمل کرنا ہےاور ثواب کا باعث ہے،چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ِ مبارک ہے:"تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی زیادہ اچھے طریقہ سے کرنے والا ہو"۔لیکن یہ   بات بھی واضح رہنی چاہیے  کہ قرض کے معاملے   قرض خواہ صراحۃً    یا اشارۃً   یا   کنایۃً     زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

صحیح مسلم میں ہے:

'' عن عطاء بن يسار، عن أبي رافع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكراً، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره، فرجع إليه أبو رافع، فقال: لم أجد فيها إلا خياراً رباعياً، فقال: «أعطه إياه، إن خيار الناس أحسنهم قضاءً''

(كتاب البيوع، باب من استسلف شيئا فقضي خيرا منه وخيركم احسنكم قضاء، ج:5، ص:54، رقم:1600، ط:دار الطباعة العامرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا ‌حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في القرض، مطلب في القرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:166، ط:مصطفي البابي الحلبي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501102231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں