ادھار روپے لے كر واپسی کے وقت سونے کی قیمت کا اعتبار کرنا کیسا ہے ؟
واضح رہے کہ قرض لیتے یا دیتے وقت جس کرنسی میں قرض دیا گیا ہو واپسی کی صورت میں وہی کرنسی واپس کی جائے گی،چاہے واپسی کے وقت اس کرنسی کی مالیت بازار میں کم ہوچکی ہو یا زیادہ ہوچکی ہے۔چنانچہ اگر کسی نے مثلًا ایک سال پہلے ایک لاکھ روپے قرض لیا ہو اور اس وقت ایک لاکھ روپے میں ایک تولہ سونا آتا ہو، لیکن آج قرض ادا کرتے وقت ایک تولہ سونا سوا لاکھ کا ہوچکا ہو تب بھی آج اگر وہ قرض واپس کر رہا ہے تو ایک لاکھ روپے ہی ادا کرنے کا پابند ہے،اس سے اگر قرض خواہ ایک لاکھ سے زائد کا مطالبہ کرے گا تو یہ سود کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگا۔
وفي العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية:
"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم و تصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم و لاينظر إلى غلاء الدراهم و رخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".(1/ 279ط: دار المعرفة)
وفیه أیضاً :
" الديون تقضى بأمثالها".(2/ 227ط: دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200961
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن