میں نے بنک سے قرض لیا تھا جو وقتاً فوقتاً سود کی صورت میں زیادہ ہونے لگا، میں نے اس کا مکمل قرض ادا کرنے کے لیے اپنے دوست سے قرض مانگا تو اس نے کہا کہ میں قرض دوں گا، لیکن ایک مہینے بعد ایک لاکھ روپے زیادہ لوں گا۔کیا یہ بھی سود ہے؟
واضح رہے کہ قرض دیتے ہوئے وصولی کے وقت قرض سے زائد رقم لینے کی شرط لگانا سود ہے اور سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور برا ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔
قرآنِ کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِيَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}
ترجمہ:’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو ، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔
[البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے دوست کا اس طور پر قرض دینا کہ واپسی میں ایک لاکھ روپے زیادہ لوں گا یہ بھی شرعاً سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔
حدیث مبارک میں ہے:
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ".
[الصحیح لمسلم، باب لعن آكل الربا ومؤكله، رقم الحديث:1598، ط:دار إحیاء التراث العربي]
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: کلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي: إذا کان مشروطًا کما علم مما نقله عن البحر."
(مطلب کل قرض جر نفعًا حرام، فصل في القرض، باب المرابحة والتولیة، ص:166، ج:5، ط:سعید)
اعلاء السنن میں ہے:
"وکل قرض شرط فیه الزیادۃ فهو حرام بلا خلاف، قال ابن المنذر: أجمعوا علي أن المسلف إذا شرط علي المستسلف زیادۃً أو هدیة، فأسلف علي ذٰلك أن أخذ الزیادۃ علي ذٰلك ربا، قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ علیه وسلم: کل قرض جر منفعة فهو ربا".
[کتاب الحوالة، باب کل قرض جر منفعة فهو ربا، ج:14ص:513 ط: إدارۃ القرآن کراچی]
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100825
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن