بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر نفع حاصل کرنا


سوال

ایک آدمی نے دوسرے کو 70 ہزار روپے دیے اور کہا کہ موٹر سائیکل خریدلو اور مجھے تین مہینے کے بعد 77000 روپے دے دینا، اس  کا کیا حکم ہے؟ جب کہ موٹرسائیکل متعین نہیں تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایک شخص کا دوسرے کو 70 ہزار روپےبطورِ قرض دے کر (جیسا کہ سوال میں ظاہراً قرض ہی کی صورت کا ذکر ہے) پھر تین ماہ بعد 7 ہزار روپے زائد وصول کرنا سود ہے اور اس رقم کی وصولی حرام ہے۔ تین ماہ بعد رقم دینے والا شخص صرف 70 ہزار روپے ہی وصول کرسکتاہے، چاہے مقروض موٹرسائیکل خریدے یا نہ خریدے۔

البتہ اگر یہ صورت ہو کہ رقم دینے والا شخص خود 70 ہزار میں موٹر سائیکل خریدے، اور قبضہ و ضمان میں آجانے کے بعد پھر قسطوں پر دوسرے شخص کے ہاتھوں کچھ زائد رقم پر موٹر سائیکل فروخت کرے اور درمیان والا شخص جسے رقم دی ہے وہ اس کا وکیل ہو تو یہ صورت جائز ہوگی، لیکن اس صورت میں بھی دو شرائط کا لحاظ ضروری ہوگا: ایک یہ کہ موٹر سائیکل بیچتے وقت موٹر سائیکل کی ایک ہی رقم (قیمت فروخت) متعین کردی جائے۔ دوسرا یہ کہ قسط کی ادائیگی کی مدت مقرر ہو اور قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ وصول نہ کیاجائے اور نہ ہی بعد میں قیمت میں اضافہ کیا جائے۔

اگر آپ کا مقصد کسی اور صورت کے بارے میں سوال کرنا ہے تو وضاحت سے لکھ کر دوبارہ سوال ارسال کردیجیے۔

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م)

"عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليًّا رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل قرض جر منفعة فهو ربا".

( أخرجه الحارث في مسنده كما في المطالب العالية:«باب الزجر عن القرض إذا جر منفعة» (7/ 326) برقم (1440)،ط. ار العاصمة ، دار الغيث – السعودية، الطبعة: الأولى، 1419.)

فتاوی شامی میں ہے:

"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام   (5/ 166)،ط. سعيد،كراچی)

 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں