بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پردی ہوئی رقم کی زکوٰۃ کا حکم


سوال

ایک فلیٹ میں نے اپنی امی سے  ایک سال کی ادھاری پر خریدا ہے ،وہ فلیٹ کرایہ پر دیا ہوا تھا ،میں نے اپنی امی سے 40 لاکھ روپے میں ایک سال کی ادھاری پر خریدکر 40 لاکھ نقد میں کسی اور کو بیچ دیا،اب جو رقم آئی ہے اسے تقریباً ایک مہینہ ہوگیاہے ،کیا اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی ؟اور اگر ہوگی تو کس پر مجھ پر یا میری امی پر ؟ واضح رہے کہ میں  پہلے سے صاحب نصاب ہوں ۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں سائل چونکہ40لاکھ کا مقروض ہے ،تو اس 40 لاکھ کی زکوٰۃسائل پر لازم نہیں ہوگی،البتہ اس کے علاوہ اگر سائل صاحب نصاب ہے تو اس کی زکوٰۃ سائل پر لازم ہوگی،اوراس 40لاکھ کی زکوٰۃ سائل کی والدہ پر لازم ہے،البتہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں اختیار ہے کہ ہر سال ادا کرتی رہے یا جب رقم وصول ہو تو ادا کردے البتہ    اگر  اس رقم کی وصولی میں کئی سال لگ جاتے ہیں، تو   اس رقم کے وصول ہونے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، اگر پیشگی اس رقم کی زکوٰۃ ادا کردے تو یہ بھی جائز ہے جیساکہ اوپر لکھا گیاہے ۔

الد رالمختار مع الردالمحتار میں ہے :

"(ومديون للعبد بقدر دينه) فيزكي الزائد إن بلغ نصابا."

(کتاب الزکوٰۃ،ج:2،ص:263،ط:سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"( ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام.
ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة."

(کتاب الزکوٰۃ۔ج:2،ص:160،ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

 (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين."

(2/ 305،  کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ط: سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں