زید نے عمرو سے پچاس ہزار اس شرط پر ادھار لیے ہیں کہ جب میری گندم کی کٹائی ہوگی تو میں آپ کو گندم مارکیٹ کے ریٹ سے فی من پر 500 پانچ سو کم کے حساب سے دوں گا؟کیا یہ شرعا درست ہے؟
واضح رہے کہ قرضہ دے کر اس پر نفع وصول کرنا سود ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں پچاس ہزار اس شرط پر ادھار لینا کہ گندم مارکیٹ سے پانچ سو روپے کم پر دیا کرو گےناجائز اور حرام ہے۔
"عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليًّا رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل قرض جر منفعة فهو ربا".
( أخرجه الحارث في مسنده كما في المطالب العالية:«باب الزجر عن القرض إذا جر منفعة» (7/ 326) برقم (1440)،ط. ار العاصمة ، دار الغيث – السعودية، الطبعة: الأولى، 1419.)
فتاوی شامی میں ہے:
"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".
(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام (5/ 166)،ط. سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144403102000
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن