بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں نے ایک آدمی کو قرض دیا ہے لیکن وہ واپس  نہیں  دیتا ہے او  ر مجھے  ظن غالب ہے کہ وہ شخص مجھے وہ قرض واپس نہیں دے گا اور کئی  سال گذر چکے ہے ۔ اس قرض پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ ایسا قرض جس کی وصول یابی مشکل ہو، اس قرض پر فی الحال زکوۃ لازم نہیں ہے، ہاں اگر  کبھی بھی یہ قرض وصول ہو گیا   یا جتنی رقم بھی وقتاً فوقتاً وصول ہوتی رہے،تو اس وقت گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ کی ادائیگی  کرنا لازم ہوگی۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا وكيع، عن موسى بن عبيدة، عن نافع، عن ابن عمر، قال: «زكوا زكاة أموالكم حولا إلى حول، وما كان من دين ثقة فزكه، وإن كان من دين مظنون فلا زكاة فيه حتى يقضيه صاحبه»."

(كتاب الزكوة،‌‌زكوة الديون،389/2،ط:دار التاج)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(و) اعلم ‌أن ‌الديون ‌عند ‌الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة)."

(كتاب الزكوة،باب زكوة المال،305/2، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌ويشترط ‌أن ‌يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو يد نائبه فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه وذلك مثل مال الضمار كذا في التبيين وهو كل ما بقي أصله في ملكه ولكن زال عن يده زوالا لا يرجى عوده في الغالب كذا في المحيط."

(كتاب الزكوة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،174/1، ط:رشيدية)

فتح القدیر میں ہے:

"‌ففي ‌القوي ‌تجب الزكاة إذا حال الحول ويتراخى الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم وكذا فيما زاد فبحسابه، وفي المتوسط لا تجب ما لم يقبض نصابا وتعتبر لما مضى من الحول في صحيح الرواية، وفي الضعيف لا تجب ما لم يقبض نصابا ويحول الحول بعد القبض عليه، وثمن السائمة كثمن عبد الخدمة."

(کتاب الزکوة،167/2، ط: دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں