بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر نفع لینے کا حکم


سوال

ایک خاتون کے پانچ بیٹوں نے مل کر اپنی والدہ محترمہ کے لیے ایک فلیٹ خریدا اور سب نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ والدہ جب تک  وہاں رہنا چاہیں رہ سکتی ہیں لیکن جب وہ وہاں نہیں رہنا چاہیں گی تو فلیٹ کو فروخت کرکے سب کو ان کے پیسے واپس دے دیے جائیں گے اور اگر  منافع ہوا تو وہ بھی سب میں تقسیم ہوگا ، جب فلیٹ خریدنے کا وقت آیا تو  کچھ رقم  کم پڑنے کی وجہ سے بیٹوں نے اپنی والدہ سے کچھ رقم بطورقرض لی اور سب نے اس پر اتفاق کیا کہ فلیٹ کو بیچنے کے وقت یہ رقم والدہ کو واپس لوٹادی جائیگی اور اب فلیٹ کو والدہ کے  نہ رہنے کی وجہ سے  بیچا گیا ہے جس سے کچھ منافع بھی ہوا ہے جبکہ ایک بیٹی کا کہنا یہ ہےکہ والدہ کو بھی اس منافع میں شامل کیا جائے کیوں کہ ان کی رقم بھی تھی، جب کہ والدہ سےرقم بطور قرض لی گئی تھی ، لہذا کیا اس طرح قرض پر نفع دینا سود ہوگا یا نہیں؟ اور تمام اولاد  یہ بھی چاہتی ہے کہ ان کے آپس کے تعلقات خراب  نہ ہوں تو پھر یہ وبال کس پر آئےگا؟ 

2۔والدہ محترمہ یہ چاہتی ہیں کہ ان کا پیسہ جب ملےتو وہ ان کے بیٹوں میں برابر تقسیم کریں، جب کہ ان کی بیٹی چاہتی ہےکہ وہ رقم کاروبار میں لگائی جائے اور والدہ کو کچھ رقم  ہر مہینے نفع کے طور پر ملتی رہے، آیا اس طرح کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ مذکورہ معاملہ میں   بیٹوں نے اپنی والدہ سے جو رقم قرض کے طور پر  گھر کی قیمت میں شامل کرنےکے  لیے لی  تھی   اور یہ طے ہوا تھا کہ مکان جب فروخت ہوگا تو والدہ کو ان کی رقم واپس کردی جائے گی، چوں کہ والدہ نے کسی شرط کے بغیر  قرض کے طور پر  رقم دی تھی ،اور اس میں کسی قسم کی اضافی رقم کی شرط نہیں تھی تو اب مکان فروخت ہونے کی صورت میں بیٹے اگر اپنی طرف سے والدہ کو اصل رقم کے علاوہ کچھ زائد رقم دینا چاہیں تودے سکتے ہیں، شرعاً ایسا کرنا جائز ہے ، اس  صورت میں یہ اضافی رقم سود نہیں ہوگی ۔ 

2۔والدہ  اپنے پیسوں کی مالک ہیں، وہ جس طرح چاہیں اس میں شریعت کے مطابق  تصرف کرسکتی ہیں  ،لہذاوالدہ کے لیے  بیٹوں  کو دینا بھی جائز ہےاور اگر وہ چاہیں تو  کاروبار میں لگانا بھی جائز ہے  ،البتہ اگر وہ اپنے پیسے اپنی اولاد کو دینا  چاہتی ہیں تو ایسی صورت میں ضروری ہے کہ جس طرح اپنے مذکورہ پانچ بیٹوں کو دے رہی ہیں  ، اسی طرح دیگر اولاد کو بھی ان بیٹوں کے  برابر  حصہ دیں ، اولاد میں سے بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا شرعا درست نہیں ۔

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م)

فتاوی شامی میں ہے:

"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام   (5/ 166)،ط. سعيد،كراچی)

حضور اکرم ﷺکا ارشاد مبارک ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف  الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ".

(4/444، کتاب الوقف،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں