میں ایک ریٹیلر ہوں، اور جیز کیش کا کام کرتا ہوں ،دکاندار جیز کیش میں ہزار روپے بھیجنے کے 10 روپے اضافی بطور کمیشن یا سروس چارجز لیتے ہیں، میرا ایک دوست اکثر کام کر کے جیز کیش میں کیش لے لیتا ہے ،اور بعد میں کچھ رقم مجھے اضافی دے دیتا ہے ،اس اضافی رقم کے لیے میں نے کبھی کوئی مطالبہ یا اشارہ نہیں کیا، اور میرے پوچھنے پر وہ بول دیتا ہے کہ یہ رقم بطور تحفہ رکھ لے، اور بعض اوقات وہ مجھے یہ بول کر کے ہزار روپے سینڈ کر دیتا ہے کہ میں آپ کو دو ہزار روپے دوں گا، کیا یہ اضافی رقم میرے لیے جائز ہے ؟اور ہاں میرے پوچھنے یا اصرار پر وہ بولتا ہے کہ مجھے آپ کی رقم سے فائدہ ہوتا ہے ،تو اس لیے میں اضافی رقم آپ کو بطور تحفہ دے دیتا ہوں ،برائے مہربانی مجھے بتایا جائے کہ میرے لیے یہ اضافی رقم جائز ہے یا نہیں؟ یا پھر یہ بتا دیں کہ یہ اضافی رقم کس معاہدے کے تحت جائز ہوگی؟
واضح رہےکہ جیزکیش کی سہولت فراہم کرنےوالادکاندارکمپنی کی طرف سےنمائندہ ہوتاہےاگرکمپنی نےاپنےنمائندہ کورقم لینے کی اجازت دی ہوتواس رقم سےزیادہ رقم لینانمائندہ کےلیےجائزنہیں ہوگا،اب صورتِ مسئولہ میں سائل کواس کادوست جیزکیش کی سہولت فراہم کرنےپرجواضافی رقم دیتاہےسائل کوصرف اتنالیناجائزہےجتناکمپنی نےلینے کی اجازت دی ہےاس سےزیادہ لیناجائزنہیں ہے۔
الاشباہ والنظائرمیں ہے:
"كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن كما في الظهيرية وما روي عن الإمام أنه كان لا يقف في ظل جدار مديونه."
(کتاب المداینات،باب کل قرض جرنفعاً،ص:226،ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)
البحر الرائق میں ہے:
"ولا يجوز قرض جر نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر فإن قضاه أجود بلا شرط جاز، ويجبر الدائن على قبول الأجود، وقيل لا كذا في المحيط، وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام، والشرط ليس بلازم بأن يقرض على أن يكتب إلى بلد كذا حتى يوفي دينه۔۔۔وفي المحيط، ولا بأس بهدية من عليه القرض، والأفضل أن يتورع إذا علم أنه إنما يعطيه لأجل القرض أو أشكل فإن علم أنه يعطيه لا لأجل القرض بل لقرابة أو صداقة بينهما لا يتورع، وكذا لو كان المستقرض معروفا بالجود، والسخاء جاز."
(فصل في بيان تصرف في المبيع والثمن قبل قبضه،ج:6،ص:133،ط:دارالكتاب الاسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويرد هدية) التنكير للتقليل ابن كمال: وهي ما يعطى بلا شرط إعانة بخلاف الرشوة ابن ملك ولو تأذى المهدي بالرد يعطيه مثل قيمتها خلاصة ولو تعذر الرد لعدم معرفته أو بعد مكانه وضعها في بيت المال.
أن تعليل النبي صلى الله عليه وسلم دليل على تحريم الهدية التي سببها الولاية وكذا قوله وكل من عمل للمسلمين عملا حكمه في الهدية حكم القاضي...والظاهر أن المراد بالعمل ولاية ناشئة عن الإمام أو نائبه كالساعي والعاشر. قلت : ومثلهم مشايخ القرى والحرف وغيرهم ممن لهم قهر وتسلط على من دونهم فإنه يهدي إليهم خوفا من شرهم أو ليروج عندهم."
(كتاب القاضي، مطلب في هدية القاضي، ج:5،ص:372، ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603102811
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن