زید نے ایک آدمی سے پانچ لاکھ روپے قرض کے طور پر لیے اور اب ادا کرنے پر قادر نہیں تو کسی تیسرے آدمی نے زید سے کہا کہ میں آپ کی طرف سے آپ کا قرض چارلاکھ روپے تک ادا کردوں گا، مگر آپ نے مجھے پھر پانچ لاکھ روپے واپس دینے ہوں گے تو کیا اس تیسرے آدمی کا زید سے ایک لاکھ روپے اضافی لینا سود تو نہیں ہے جبکہ قرض خواہ صرف چار لاکھ روپے قرضہ واپس لینے پر راضی بھی ہو؟
صورتِ مسئولہ میں تیسرے آدمی کا مقروض زید کا قرضہ چار لاکھ روپے تک ادا کرنا اور واپسی میں زید سے ایک لاکھ روپے اضافی رقم کا مطالبہ کرکے پانچ لاکھ مانگنا عینِ سود ہے اگرچہ قرض خواہ چار لاکھ روپے لینے پر ہی کیوں راضی نہ ہو، کیونکہ قرض کے بارے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض لیا جائے، اتنی ہی مقدار قرض دار پر قرض خواہ کو واپس کرنا لازم ہے، لہٰذا مذکورہ معاملہ سود ہے، اس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا»؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."
(ج:7، ص:395، كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144307100692
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن