بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر دی ہوئی رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص اپنا مال کسی کو قرض دے تو کیا اس قرض دار کو اپنے مقروضہ   مال کی زکوٰۃ دینا پڑےگی یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں قرض د ی ہوئی رقم اگر تنہا یا سونا چاندی یا مال تجارت سے مل کر نصاب کے برابر یا اس زیادہ ہو تو زکاۃ کا سال پورا ہونے  پر اس رقم پر زکوۃ فرض ہے البتہ وصول ہونے سے پہلے زکوۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے اگر وصول ہونے سے پہلے زکوۃ ادا کردی تو بھی ادا ہوجائے گی دوبارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم

(قوله: عند قبض أربعين درهما) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لا تجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج فكذلك لا يجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج.وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين."

(کتاب الزکوۃ , باب زکوۃ المال جلد 2 ص: 305 ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410101162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں