بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر دی ہوئی رقم پر زکوٰۃ کا حکم


سوال

میرے کچھ پیسے لوگوں کے پاس ہیں ،کچھ مل گئے ہیں اور کچھ   ملنے  ہیں،پکا یقین نہیں ہے کہ ملیں گے یا نہیں ، کافی سال ہوگئے ہیں  کہ میں نے زکوٰۃادا نہیں کی ہے۔

1۔کیا یہ مال جو میرے پاس ہے ہی نہیں اس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟

2۔اگر مل جائے تو کب سے کب تک کی زکوٰۃ دینی ہوگی؟

مجھ سے کچھ لوگوں نے قرضہ لیا ہوا ہے ،

1۔کیا اس کی میں زکوٰۃ اداکروں گا؟

2۔اگر ملنے کی امید نہ ہو تو کیا زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟

3۔اگر تھوڑے تھوڑے مل  رہے ہو تو زکوٰۃ کس طرح ادا کرنی ہوگی؟

میرے پاس کاروبار   کی نیت سے  کچھ بکرے اور بکریاں ہیں اس  کی زکوٰۃ کیسے ادا کرنی   ہوگی؟

میرے کچھ پیسے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں ،اس کے اصل مال پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی  یا نفع پر  ؟

میرا اپنا  مکان ہے جس میں میں رہتا ہوں ، اس کے علاوہ میں نے  اپنے بچوں کے لیے ایک پلاٹ لیا ہوا ہےکہ مستقبل میں بچوں کے کام آجائے ، مالک میں خود ہوں ، کیا اس (پلاٹ) کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟

صحیح اندازہ نہیں ہے کہ میرے پاس سال کے آخر میں  کتنا پیسہ تھا  جس پر سا ل گزر چکا ہو اور کتنا پیسہ کاروبار میں لگا ہوا تھا، اس پر زکوٰۃ کا تعین کیسا ہوگا؟

میرا پیسہ کافی لوگوں نے کھایا ہوا تھا ،وہ لوگ دے بھی نہیں رہے تھےاس دوران میں نےخود کچھ لوگوں سےقرضہ لیا، اس دوران جو میرے اپنے پیسے تھےجو کہ ملے ہی نہیں  اورسا ل گزرتےگئے، میں خودبھی مقروض تھا، تو کیا میں اپنے    پھسے ہوئے پیسوں پر زکوٰۃ اداکروں گا ؟ اگر ہاں تو کس طرح ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ سائل نے  جو پیسے کاروبار میں لگائے  ہیں یا لوگوں کو قرض پر د ئیے ہوئے ہیں    وہ رقم اگر  تنہا یا سونے چاندی یا سائل کے پاس دیگر موجود  پیسوں یا مالِ تجارت کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر  یا اس سے زیادہ ہو تو زکوۃ کا سال پورا ہونے پر سائل پر  ان کی زکوٰۃ فرض ہے،البتہ  وصول ہونے سے پہلےزکوٰۃ ادا کرنا  لازم نہیں ہے،اگر وصول ہونےسے پہلےزکوٰۃ ادا کردی تو بھی ادا ہو جائے گی،وصول ہونے کے بعد دوبارہ زکوٰۃ دینا لازم نہیں ہوگا۔

2،7۔اگر سائل کو اپنا   قرض وصو ل ہونے کی امید نہ ہو یا وصول ہونے میں  تر دد ہو لیکن مقروض انکار نہ کر رہا ہو   یا مقروض انکارتو کررہا ہو لیکن سائل کے پاس  اس کے خلاف گواہ یا دلائل  ہوں تو سائل پر ان  پیسوں کی زکوٰۃ فرض ہے،البتہ وصول  ہونے  سے پہلے ادا کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ وصول ہونےکے بعد ادا کرنا لازم ہوگا،اور جتنی رقم وصول ہوتی رہےگی صرف اتنی رقم  کی زکاۃ  ادا کرنا لازم ہو گی،جو رقم باقی  ہوگی اس کی زکاۃ کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی، البتہ جب  وصول ہوگی اس کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی اس پر واجب   ہوگی ۔

3۔سائل نے جو مویشی کاروبار کی نیت سےاپنےپاس  رکھے ہیں ہر    سال دیگر اموال ِ زکواۃ کے ساتھ ان کی موجودہ مالیت پر بھی زکوٰۃ فرض ہوگی۔

4۔مالِ تجارت  اور نفع دونوں پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔

5۔جو پلاٹ سائل نے مستقبل میں بچوں کے کام آنے کے لیے  لیا ہے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

6۔اگر پوری کوشش کے باوجودصحیح حساب لگانا    ممکن  نہ ہوتو  اندازا  لگاکر اس میں  کچھ اضافہ کرکے زکاۃ  ادا کریں تاکہ زکاۃ واجب مقدار سے  کم ادا نہ     ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

 (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال،305/2،ط: ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها الملك المطلق...  فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما.وتفسير مال الضمار هو كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك كالعبد الآبق والضال، والمال المفقود، والمال الساقط في البحر، والمال الذي أخذه السلطان مصادرة، والدين المجحود...".

(کتاب الزکاۃ،فصل الشرائط التي ترجع إلى المال،88/2،ط:مکتبۃ الوحیدیة)

مجمع الانهر میں ہے:

"(ولا شيء في البغال والحمير ما لم تكن للتجارة) لقوله - عليه الصلاة والسلام - "ليس في الكسعة صدقة" الكسعة الحمير فإذا لم تجب في الحمير لا تجب في البغال؛ لأنها من نسلها إلا أن تكون للتجارة فتجب زكاة التجارة (وكذا الفصلان) بالضم أو الكسر جمع الفصيل ولد الناقة إذا فصل عن أمه".

(كتاب الزكاة،فصل في زكاة الخيل،1/ 201، ط: دار إحياء التراث العربي)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ثم لا خلاف أن نية التجارة إذا اقترنت بالشراء أو الإعارة صار المال للتجارة لأن النية اقترنت بعمل التجارة ... وإن كان عنده عبيد للخدمة فنوى التجارة لم تكن للتجارة ما لم يبعهم لأن النية تجردت عن عمل التجارة".

(کتاب الزكاة، زكاة الحلي، 2/ 198، ط: دار المعرفة ،بيروت )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144308100243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں