بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض ادا نہ کرنے پر وعید!


سوال

کیا یہ بات کسی حدیث میں ہے کہ مقروض جب تک قرضہ ادا نہ کرے تو جنت میں داخل نہیں ہوتا! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازہ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے؟

جواب

 قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض نہ اتارنا اور اس میں ٹال مٹول کرناظلم ہے، یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے؛ تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔ بعد میں جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فتوحات عطا فرمائیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے موقع پر یہ سوال فرماتے، اگر میت مقروض ہوتی اور اس نے ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام فرماتے اور نمازِ جنازہ ادا فرماتے، جیساکہ مندرجہ ذیل روایت مروی ہے:

"عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بجنازة ليصلي عليها، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: نعم، قال: «صلوا على صاحبكم»، قال: أبو قتادة علي دينه يا رسول الله، فصلى عليه".

(صحیح البخاری،کتاب الکفالۃ، باب من تكفل عن ميت دينا، فليس له أن يرجع، رقم الحدیث:2295، ج:3، ص:96، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: حضرتِ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی،  پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو، حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔

اسی طرح ایسے شخص کے بارے میں جنت میں داخل نہ ہونے کی وعید بھی وارد ہے، جیسے کہ درجِ ذیل روایت میں مروی ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه".

(سنن الترمذی، ابواب الجنائز، باب ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه، رقم الحدیث:1078، ج:2، ص:380، ط:دارالغرب الاسلامی)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں