بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض میں جو کرنسی لی جائے وہی کرنسی یا اس کی مالیت کی دوسری کرنسی واپس کی جائے گی


سوال

اکتوبر 2018 میں میرا بیٹا پڑھنے کی غرض سے کینیڈا گیا تھا اور مجھ سے 28 لاکھ پاکستانی جس کو ڈالر میں تبدیل کرواکر لے گیا تھا،اس وقت ڈالر کی قیمت 96 روپے تھی اب اگر وہ ہمیں واپس کرے گا تو ڈالر کے حساب سے دے گا یا پاکستانی کرنسی میں واپس کرے گا؟ مثال کے طور پر پاکستانی کرنسی کو 28 ہزار ڈالر میں تبدیل کرکے لے گیا تھا تووہ اتنے ہی واپس کرے گایا ابھی کے حساب سےجو بن رہے ہیں 13895 تیرہ ہزار آٹھ سو  پچانوے واپس کرے گا؟میں چاہتی ہوں کہ خوشی سے معاملہ حل ہوجائے اس لیے آپ سے تصدیق کروارہی ہوں۔


جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ(قرض دینے والے) نے اپنے بیٹے کو پاکستانی کرنسی کی صورت میں 28 لاکھ روپے قرض دیے تھے،ڈالر کرکے نہیں دیے تھے،  تو قرض کی ادائیگی کے وقت قرض دینے والی(سائلہ) کا حق پاکستانی کرنسی28 لاکھ روپےہی واپس لینے  کا  حق ہے،اگر چہ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہو، اور اگر سائلہ نے پاکستانی کرنسی کو ڈالر میں تبدیل کرکے بیٹے کو  ڈالر دیے تھے تو پھر اتنے ہی ڈالر ملیں گے کہ جتنے دیے تھے۔

تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى."

(كتاب البيوع، باب القرض، ج:1، ص:500، ط: قديمي كتب خانه )

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"أن الديون تقضى بأمثالها۔"

(الكتاب الرابع عشر الدعوى، (المادة 1613) الدعوى هي طلب أحد حقه من آخر في حضور القاضي، ج:2 ص:261، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الرهن، ‌‌فصل في مسائل متفرقة، ج:6، ص:525، ط: سعید)

وفيه ايضاً:

"أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه و رخصه."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في القرض،ج:5، ص:162، ط: سعید)

فقط والله أعلم



فتوی نمبر : 144408102192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں