اگر مالی حالات کمزور ہو ں ،اور جیب میں پیسے نہ ہوں، تو کیا قرض لے کر عقیقہ کرسکتے ہیں ؟
’’عقیقہ‘‘ مستحب عمل ہے، بصورتِ گنجائش کرنا چاہیے، مالی استطاعت نہ ہو تو تکلف کرتے ہوئے اس کے لیے قرض لینے کی ضرورت نہیں،البتہ اگر قرض ملنے میں دشواری نہ ہو اور ادائیگی میں بھی پریشانی کا اندیشہ نہ ہو، تو قرض لے کر بھی کرسکتے ہیں، جائز ہے،غرض و غایت میں اہم ہے ضرور کر لیں۔
مشكاة المصابيح ميں ہے:
"وعن الحسن عن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته تذبح عنه يوم السابع ويسمى ويحلق رأسه."
(باب العقیقۃ،ج:2،ص:1207،ط:المکتب الاسلامی)
ترجمہ:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر بچہ اپنےعقیقہ کے بدلے گروی ہوتاہے ،اس کی طرف سے ساتویں روز ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائےاوراس کا سر مونڈا جائے۔"
فتاوی شامی میں ہے:
"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم."
(کتاب الاضحیة،ج:6،ص:336، ط: سعید)
صحیح بخاری میں ہے:
"عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بجنازة ليصلي عليها، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: نعم، قال: «صلوا على صاحبكم»، قال: أبو قتادة علي دينه يا رسول الله، فصلى عليه".
(صحیح البخاری،کتاب الکفالة، باب من تكفل عن ميت دينا،ج:3، ص:96، رقم الحدیث:2295،ط:دارطوق النجاۃ)
ترجمہ:" حضرتِ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جنازہ لایا جاتا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں، تو آپ نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: جی ہاں، فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو، حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پرہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101240
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن