بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرضہ لینے کے بعد بھول جانا / قرض خواہ کا قرض کی رقم نہ لینے کی صورت میں رقم کا حکم


سوال

 میرے پہ بہت لوگوں کا قرض ہے، چاہیے وہ 500-1000 کی صورت ميں ہی ہے، لیکن کچھ یاد ہیں  اور کچھ مجھے یاد نہیں، اور لوگوں میں سے بعض سے کوئی رابطہ بھی نہیں، لیکن ان سے کبھی میں نے پیسے لیے 500-1000 میں ان کی ادائیگی کیسے کروں؟ جب کے وہ لوگ میرے رابطہ میں نہیں ہیں یا وفات پا چکے ہیں،رہنمائی فرمائیں ۔

کچھ مجھ  سے واپس لینا نہیں چاہتے میں نے ان کو دینے کی جب بھی بات کی وہ انکار ی ہو گئے کہ  ہم نے قرض نہیں دیا تھا،جب کہ  میں نے قرض کی نیت سے ہی لیے تھے کہ  واپس کروں گا اب مجھے کیا کرنا چاہیے جو مجھ سے واپس لے نہیں رہے۔اور جو میں بھول چکا ہوں، رہنمائی فرمائیں۔

جواب

از روئے شرع قرض اور ادھار لی ہوئی چیز کی واپسی کا اہتمام کرنا مقروض پر لازم ہے، قرضہ لینے کے بعد واپسی میں ٹال مٹول، سستی اور لاپرواہی   کرنا سخت گناہ ہے جس سے احتراز کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

1: صورتِ مسئولہ میں قرض لینے کی صورت میں اگر قرض خواہ معلوم ہے تو اس کی حیاتی میں ان سے کسی بھی طرح رابطہ کرکے ان کا قرضہ انہی کو لوٹانا ضروری ہے، اور اگر قرض خواہ انتقال کرچکا ہے تو اس کے ورثاء کو لوٹانا ضروری ہے، اور اگر قرضہ یاد ہے لیکن قرض خواہ معلوم ہی نہیں ہےیا ان سے کسی بھی طرح رابطہ کرنا ممکن نہیں ہے تو قرضہ کے بقدر رقم صدقہ کرنا ضروری ہے، اور اگر  قرض لینا  ہی یاد نہیں  ہے تو اس پر آخرت میں مواخذہ بھی نہیں ہوگا، البتہ یہ نیت ضرور رکھے کہ جب یاد آئےگا تو ادا  کروں گا۔

2:  اگرقرض کی ادائیگی کے وقت قرض خواہ مقروض سے  قرضہ  لینے  کے  بجائے واقعتاً اسے قرضہ معاف کردے، تو یہ رقم قرض خواہ کی جانب سے مقروض کو ہدیہ (گفٹ) ہے، اور مقروض اس کا مالک ہوجاتا ہے، اس کے بعد اس قرض کو لوٹانا مقروض کے ذمہ لوٹانا ضروری نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون (في المعقبي) مجتبى.

(قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة. والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له. اهـ. (قوله: فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخاص به أو المتحصل من المظالم. اهـ. ط وهذا إن كان له مال. وفي الفصول العلامية: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة.

 (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم".

(کتاب اللقطة، مطلب فيمن عليه ديون ومظالم جهل أربابها، ج:4، ص:283، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی عالمگیری (الفتاویٰ الہندیہ ) میں ہے:

"هبة الدين ممن عليه الدين جائزة قياسًا واستحسانًا ...

هبة الدين ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى، وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي".

(الباب الرابع في هبة الدين ممن عليه الدين، ج:4، ص:384، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144308100147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں