بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض لے کر شروع کیے گئے کاروبار کی زکوۃ کا حکم


سوال

میں نے  چھ  ماہ پہلے کرایہ پر دوائیوں کی دوکان کھولی ہے،  میں نو لاکھ پچاس ہزار کا مقروض ہوں،  چار افراد کو ادا کرنے ہیں، کیا مجھ پر زکاۃ دینا لازم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کے پاس ذاتی سرمایہ نہ ہو، اور وہ کسی سے قرض لے کر کاروبار شروع کرے تو  ایسے شخص پر زکوۃ  اس وقت تک واجب نہ ہوگی، جب تک کہ قرض کی رقم کو منہا کرنے کے بعد  بقایا  رقم نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد  نہ ہو، اور اس پر سال نہ گزر جائے ، پس  اگر نصاب کے برابر  یا زائد سرمایہ ہونے کے بعد اس پر سال گزر  جائے تو  اس کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ مذکورہ کاروبار پر سال مکمل ہونے کے بعد  دوکان میں جتنی مالیت کا سامان قابل فروخت موجود ہو، اس کی قیمت میں سے قرض کی رقم منہا کرکے باقی ماندہ مالیت کے ساتھ  موجود نقدی  جمع کرکے مجموعی رقم اگر نصاب کے برابر یا زائد ہو تو  اس میں سے ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وَمِنْهَا الْفَرَاغُ عَنْ الدَّيْنِ) قَالَ أَصْحَابُنَا - رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى -: كُلُّ دَيْنٍ لَهُ مُطَالِبٌ مِنْ جِهَةِ الْعِبَادِ يَمْنَعُ وُجُوبَ الزَّكَاةِ سَوَاءٌ كَانَ الدَّيْنُ لِلْعِبَادِ كَالْقَرْضِ وَثَمَنِ الْبَيْعِ وَضَمَانِ الْمُتْلَفَاتِ وَأَرْشِ الْجِرَاحَةِ، وَسَوَاءٌ كَانَ الدَّيْنُ مِنْ النُّقُودِ أَوْ الْمَكِيلِ أَوْ الْمَوْزُونِ أَوْ الثِّيَابِ أَوْ الْحَيَوَانِ وَجَبَ بِخُلْعٍ أَوْ صُلْحٍ عَنْ دَمِ عَمْدٍ، وَهُوَ حَالٌّ أَوْ مُؤَجَّلٌ أَوْ لِلَّهِ - تَعَالَى - كَدَيْنِ الزَّكَاةِ فَإِنْ كَان زَكَاةَ سَائِمَةٍ يَمْنَعُ وُجُوبَ الزَّكَاةِ بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ أَصْحَابِنَا - رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى - سَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ فِي الْعَيْنِ بِأَنْ كَانَ الْعَيْنُ قَائِمًا أَوْ فِي الذِّمَّةِ بِاسْتِهْلَاكِ النِّصَابِ، وَإِنْ كَانَ زَكَاةَ الْأَثْمَانِ وَزَكَاةَ عُرُوضِ التِّجَارَةِ فَفِيهَا خِلَافٌ بَيْنَ أَصْحَابِنَا فَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ - رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى - الْجَوَابُ فِيهِ كَالْجَوَابِ فِي السَّوَائِمُ". (كِتَابُ الزَّكَاةِ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي تَفْسِيرِهَا وَصِفَتِهَا وَشَرَائِطِهَا، ١ / ١٧٢ - ١٧٣، ط: دار الفكر)

الجوهرة النيرة  میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَإِنْ كَانَ مَالُهُ أَكْثَرَ مِنْ الدَّيْنِ زَكَّى الْفَاضِلَ إذَا بَلَغَ نِصَابًا) لِفَرَاغِهِ عَنْ الْحَاجَةِ وَإِنْ لَحِقَهُ فِي وَسَطِ الْحَوْلِ دَيْنٌ يَسْتَغْرِقُ النِّصَابَ ثُمَّ بَرِيءَ مِنْهُ قَبْلَ تَمَامِ الْحَوْلِ فَإِنَّهُ تَجِبُ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ لِأَنَّهُ يَجْعَلُ الدَّيْنَ بِمَنْزِلَةِ نُقْصَانِ النِّصَابِ. وَقَالَ مُحَمَّدٌ: لَايَجِبُ لِأَنَّهُ يَجْعَلُ ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الِاسْتِحْقَاقِ وَإِنْ كَانَ الدَّيْنُ لَايَسْتَغْرِقُ النِّصَابَ بَرِيءَ مِنْهُ قَبْلَ تَمَامِ الْحَوْلِ فَإِنَّهُ تَجِبُ الزَّكَاةُ عِنْدَهُمْ جَمِيعًا إلَّا زُفَرَ فَإِنَّهُ يَقُولُ: لَاتَجِبُ". (كِتَابُ الزَّكَاةِ، شُرُوطُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ، ١ / ١١٥، ط: المطبعة الخيرية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201800

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں