بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض لے کر ولیمہ کرنا


سوال

 ایک صاحب اپنے لڑکے کا ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق  کرناچاہتے تھے، لیکن چند لوگوں کی فرمائش کے مطابق اپنے اوپر جبر کرتے ہوئے قرض لے کر ولیمہ کرنے پر مجبور ہیں۔کیا ایسا کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے؟

جواب

شریعت نے   جائز حدود میں رہ کر خوشی  منانے کی اجازت دی ہے  ،  لیکن  اس میں  اللہ تعالی کی قائم کردہ  حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے،  حدود اللہ سے تجاوز ایک مسنون عمل کو بھی بے برکت اور تباہی کا سبب بنا دیتا ہے۔

جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو یہ ہر انسان کا فطری تقاضہ اور سرورِ  دو جہاں آقانامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ  مبارکہ ہے،  اس میں حدود سے تجاوز اور خطرناک ہے،  شادی جتنی سادگی سے ہو اتنی بابرکت ہے،  ایک حدیث  میں  رسول اللہ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچہ کم ہو، لیکن آج کل رسم و رواج کےپیچھے  اور معاشرے میں اپنی ساکھ برقرار  رکھنے   یا دکھلاوے کے لیے لوگوں  نے شادی میں  اتنے خرچے بنا دیے ہیں کہ متوسط آمدنی والا انسان بھی اس معاملے کو انجام دینے سے گھبراتا ہے۔

شادی کے معاملے میں جن اخراجات کی شرعاً گنجائش ہے ان میں بھی اعتدال کی راہ اختیار کرنا  چاہیے۔ اور اس میں  آپ  ﷺ کے اسوۂ  حسنہ کو ملحوظ رکھا جائے۔ آپ ﷺ کا سب  سے اعلیٰ ولیمہ حضرت زینب سے ہوا جس میں ایک بکری ذبح کی گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ ولیمہ کرنا دورِ نبوی میں کتنا آسان تھا۔الغرض امیر ہو یا غریب اعتدال کی راہ سے تجاوز نہ کرے ۔

چنانچہ  دعوتِ ولیمہ جو کہ ایک  مسنون  عمل ہے، اس میں بھی فضول خرچی سے اجتناب لازم ہے، اپنی حیثیت کے مطابق ولیمہ کیا جائے۔  ہاں    اگرسادگی سے ولیمہ  انجام دینے  کے لیے بھی قرض کی ضرورت پڑ جائے، تو بعد میں  قرض چکانے  کی نیت سے قرضہ لیا جا سکتا ہے۔ (بشرطیکہ نمود و نمائش اور بے جا اسراف مقصود نہ ہو اور قرض کی   ادائیگی کا  بھی ظن غالب ہو)۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ صاحب جو اپنے بیٹے کا ولیمہ کرنا چاہتے ہیں ، ان کو  چاہیے کہ سادگی اپناتے ہوئے اپنی حیثیت  کے مطابق  ولیمہ کریں، اور  اس میں کسی کی ملامت کا خیال نہ فرمائیں، اور جو لوگ بڑھ چڑھ کر ولیمہ کرنے کےلیے قرض لینے پر مجبور کر رہے ہیں، ان کا یہ طرزِ  عمل اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں، ان کو  چاہیے کہ سنت کے مطابق ولیمہ کرنے میں دولہا کے گھر والوں کے  معاون بنیں۔

مشکاۃ میں ہے:

"3097 -[18]وَعَن عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَعْظَمَ ‌النِّكَاحِ ‌بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مُؤْنَةً» . رَوَاهُمَا الْبَيْهَقِيّ فِي شعب الْإِيمَان."

(«مشكاة المصابيح» (2/ 930):‌‌الْفَصْل الثَّالِث، ‌‌كتاب النِّكَاح، الناشر: المكتب الإسلامي - بيروت)

«فی مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح» (5/ 2049):

«أَيْسَرُهُ) أَيْ: أَقَلُّهُ أَوْ أَسْهَلُهُ (مُؤْنَةٌ) أَيْ: مِنَ الْمَهْرِ وَالنَّفَقَةِ لِلدَّلَالَةِ عَلَى الْقَنَاعَةِ الَّتِي هِيَ كَنْزٌ لَا يَنْفَدُ وَلَا يَفْنَى.»

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں