بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کے بدلے مقرّر شدہ زائد رقم کا حکم


سوال

قرض کے بدلے میں مقرر زائد پیسے دینا کیسا ہے؟

 

جواب

قرض کے بدلے مقرّر زائد رقم کا لین دین سود ہے، اور  سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے، کیوں کہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص و طمع، خود غرضی، شقاوت و سنگ دلی، مفاد پرستی، جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں، بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے، اسی وجہ سے قرآنِ مجید میں سود سے منع کیاگیا ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون"

ترجمہ: اے ایمان والو سود مت کھاؤ (یعنی مت لو اصل سے) کئی حصے زائد (کرکے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہو۔"

(سورۃ آلِ عمران، رقم الآیۃ:130، ترجمہ:بیان القرآن)  

نیز شریعتِ مطہرہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے، بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دینے کے ساتھ مختلف وعیدوں کو بھی ذکر کیا، جیسے کہ قرآنِ مجید میں ہے:

"الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىَ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ"

 ترجمہ: اور جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت میں قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شحص جس کو شیطان خبطی بنا دے لپٹ کر (یعنی حیران و مدہوش)، یہ سزا اس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے، حال آں کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے۔ پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے (لینا) ہوچکا ہے وہ اسی کا رہا اور (باطنی) معاملہ اس کا خدا کے حوالہ رہا اور جو شخص پھر عود کرے تو یہ لوگ دوزخ میں جاویں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔"

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:275، ترجمہ:بیان القرآن)

سود کی وجہ سے اگرچہ بظاہر مال میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن درحقیقت وہ مال میں نقصان، بےبرکتی، اور ناگہانی آفات کا باعث ہوتا ہے، جیسے کہ قرآنِ مجید میں ہے:

"يَمْحَقُ اللَّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ"

 ترجمہ: اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو ( اور) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو۔"

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:276، ترجمہ:بیان القرآن)

اور جو لوگ اس ممانعت کے باوجود بھی سود جیسے قبیح عمل کرتے ہیں تو ان کے اس عمل پر قہر وغضب کے اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو اللہ اور ان کے رسولﷺ کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے، قرآن مجید میں ہے:

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ

ترجمہ:  پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے (یعنی تم پر جہاد ہوگا) اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جاویں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائے گا۔"

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:279، ترجمہ:بیان القرآن)  

آپﷺ نے سود کو ہلاکت خیز عمل قرار دیا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اجتنبوا السبع الموبقات»، قالوا: يا رسول الله وما هن؟ قال: «الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات»"

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جادو کرنا اور اس جان کو ناحق مارنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور جہاد سے فرار (یعنی بھاگنا) اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔"

(صحیح البخاری، کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالی ان الذین یاکلون اموال الیتامی، رقم الحدیث:2766، ج:2، ص:242، ط:المکتب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل)  أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا .

(قوله: وإن اختلفا جودة وصياغة) قيد إسقاط الصفقة بالأثمان؛ لأنه لو باع إناء نحاس بمثله وأحدهما أثقل من الآخر جاز مع أن النحاس وغيره مما يوزن من الأموال الربوية أيضا؛ لأن صفة الوزن في النقدين منصوص عليها فلا تتغير بالصنعة ولا يخرج عن كونه موزونا بتعارف جعله عدديا لو تعورف ذلك بخلاف غيرهما، فإن الوزن فيه بالعرف فيخرج عن كونه موزونا بتعارف عدديته إذا صيغ وصنع كذا في الفتح، حتى لو تعارفوا بيع هذه الأواني بالوزن لا بالعدد لا يجوز بيعها بجنسها إلا متساويا، كذا في الذخيرة نهر."

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:257، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں