بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کو واپس کرتے وقت کس وقت کی مالیت کا اعتبار ہوتا ہے؟


سوال

خالد سے عامر نے 15000 ہزار بطور قرض لیۓ تھے عامر نے اپنی بیوی کو وصیت کی کہ میں نے خالد کو 15000 ہزار دینا ہے عامر فوت ہو گیا تو بیوی کو کافی عرصہ بعد یہ بات یاد آئی کہ میرے خاوند نے خالد کو 15000 ہزار دینے ہیں اپنے بیٹے کو بتایا تو بیٹا15000 ہزار لے کر خالد کے پاس گیا تو خالد نے انکار کیا کہ یہ تو کم ہے اس وقت کی بنسبت اس وقت 15000 ہزار بہت بڑی رقم تھی آپ مجھے اس وقت کےحساب سے رقم (150000) دو۔

جواب

واضح رہے کہ  قرض لیتے یا دیتے وقت جس کرنسی میں قرض دیا گیا ہو ،واپسی کی صورت میں وہی کرنسی واپس کی جائے گی،چاہے واپسی کے وقت اس کرنسی کی مالیت بازار میں کم ہوچکی ہو یا زیادہ ہوچکی ہو،چناں چہ اگر کسی نے مثلًا ایک سال پہلے ایک لاکھ روپے قرض لیا ہو اور اس وقت ایک لاکھ روپے میں ایک تولہ سونا آتا ہو، لیکن آج قرض ادا  کرتے وقت ایک تولہ سونا سوا لاکھ کا ہوچکا ہو تب بھی آج اگر وہ قرض واپس کر رہا ہے تو ایک لاکھ روپے ہی ادا  کرنے کا پابند ہے،اس سے اگر قرض خواہ ایک لاکھ سے زائد کا مطالبہ کرے گا تو یہ سود کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگا،لہذا صورت مسئولہ میں خالدنے عامرسے 15000ہزار بطور قرض لیے تھے،تو  مذکورہ رقم کی واپسی کے وقت اتنی ہی رقم ( یعنی 15000ہزار)واپس کی جائے گی،عامرکا مذکورہ رقم سے  زیادہ(یعنی :150000)کا مطالبہ  کرنا ہرگز جائز نہیں بلکہ زائد رقم کا مطالبہ شرعا سود میں داخل ہوگا۔

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل،ج:4،ص:320،ط: سعید)

في العقود الدرية في تنقيح الفتاوی الحامدیة:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم و تصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟(الجواب) : نعم و لاينظر إلى غلاء الدراهم و رخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".

(كتاب البيوع،باب القرض،ج:1،ص:279،ط: دار المعرفه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں