ایک شخص نے کچھ عرصہ پہلے پانچ ہزار ریال (سعودی کرنسی)قرض لیے جو اس وقت ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستانی بنتے تھے،وقت گزرتا گیا،اور اب وہ دائن مدیون سے مطالبہ کر رہا ہے کہ مجھے پانچ ہزار ریال واپس کرو،اور مدیون یہ کہہ کر اب تو پانچ ہزار ریال پاکستانی چار لاکھ روپے بنتے ہیں،لہذا میں ایک لاکھ چالیس ہزار روپے پاکستانی کرنسی دوں گا،اور دائن اس پر راضی نہیں ہے تو واضح فرمادیجیے کی دائن کو از روئے شریعت پانچ ہزار ریال (سعودی کرنسی )کا حق پہنچتاہے یا پاکستانی ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا؟
مدیون نے پانچ ہزار ریال بطور قرض لیے تھے تو اسی کے مثل پانچ ہزار ریال دائن (قرض دینے والا) واپس لینے کا حق رکھتاہے،خواہ پاکستانی کرنسی میں ریال کی قدر میں اضافہ ہواہو یا کمی،قرض کی واپسی میں پاکستانی کرنسی کا کوئی اعتبار نہیں ہے،لہذا دائن چاہے تو پانچ ہزار سعودی ریال لےیا آج کے دن پانچ ہزار ریال کے جتنے روپے بنتے ہوں اتنے روپے لےلے،لیکن قرض لینے والے کا ایک لاکھ چالیس ہزار کی ادائیگی کا کہنا شرعا غلط ہے ۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے۔
"(هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة........... (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا....... (استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه ذكره في المبسوط من غير خلاف."
(کتاب البیوع،فصل فی القرض،ج5،ص161،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100060
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن