بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی واپسی کے وقت چندہ دینے کی شرط لگانا


سوال

 میرا تعلق رنگون برما سے ہے، ہمارے ملک کے شہر رنگون میں ہندوستان کے مدراسی (تامل ناڈو) مسلمانوں کی ایک تنظیم ہے، اس تنظیم کے کافی شعبہ جات ہیں ایک شعبہ رقم کی وصولی کا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی رقم اس تنظیم میں جمع کرتے ہیں اور ادارہ کی طرف سے یہشرط لاگو ہے کہ کوئی بھی شخص سال پورا ہونے سے پہلے اپنی رقم کو نہیں نکال سکتا البتہ سال مکمل ہونے کے بعد نکال سکتا ہےاور رقم کی حیثیت ادارہ میں اس طور پر ہے کہاگر رقم کسی وجہ سے ضائع ہوجائے تو ادارہ اس کا ضامن ہوگا تو میرا پہلا سوال یہ ہے کہ اس کی حیثیت قرض کی ہے یا امانت کی ؟؟؟ دوسری بات یہ ہے کہ ادارہ قرض کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے وہ یہ کہ ادارہ میں کسی کے سو لاکھ روپے جمع ہیں تو ادارہ اس کو اس کی رقم سے دوگنی رقم قرض دیتا ہے یعنی سو لاکھ کے بدلے مزید دو سو لاکھ اور ہزار لاکھ کے بدلہ مزید دوہزار لاکھ مطلب جمع کی ہوئی رقم سے دوگنی رقم ادارہ قرض میں دیتا ہے اور قرض لینے والا معین مدت میں اس قرض کو واپس لوٹانا ہوتا ہے اور اس میں ان سے سود نہیں لیا جاتا بلکہ قرض کی رقم ہی لی جاتی ہےلیکن ایک چیز اس میں یہ ہے کہ قرض کی رقم ادارہ سے وصول کرتے وقت ادارہ کو کچھ نہ کچھ چندہ دینا ہوتا ہے اور اس میں قرض لینے والے سے چندہ کے نام پر ادارہ رقم وصول کرتا ہے اور لوگ بھی ایسے موقعہ پر دیدیتے ہیں اور اس میں چندہ بہر صورت دینا پڑتا ہے آیا یہ چندہ کی رقم سود میں شامل ہوگی یا نہیں ؟؟؟ اور قرض لینے والے کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ اگر وہ چندہ نہیں دے گا تو اسے قرض نہیں ملے گا تو کیا اس مجبوری کی وجہ سے اس کے لئے یہ رقم دینا جائز ہوجائے گا ؟؟؟ نیز ادارہ والوں کے لئے کوئی متبادل صورت نہیں ہے کہ ان کو اضافی رقم بھی ملے اور وہ سود کے زمرہ میں نہ آئے ۔

جواب

 یہ صورت قرض کی ہے،کیونکہ امانت کے مال کو استعمال کرنا،سال سے پہلے ناقابل واپسی کی شرط لگانا اور بہر صورت ہلاک ہونے کی صورت میں رقم کا ضامن بننا،یہ سب امانت کے اصول نہیں ہیں اس لیےیہ معاملہ  قرض کا ہے، البتہ مقرض سال سے پہلے رقم نہ نکالنے کی شرط کا پابند نہیں ہے،شرعی اعتبار سے وہ جب چاہے رقم نکالنے کا اختیار رکھتا ہے۔

ادارے کا قرض کی واپسی کے وقت چندہ کے نام سےمزید  کچھ رقم لینا شرعا جائز نہیں ہے،اور نہ قرض لینے والے کے لیے اس شرط کے ساتھ قرض لینا جائز ہے،یہ سودی معاملہ ہے اس کا لینا/دینا شرعا جائز نہیں ہے،سود سے بچتے ہوئے قرض پر اضافی رقم لینا  کسی صورت جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولزم تأجيل كل دين) إن قبل المديون (إلا) في سبع على ما في مدينات الأشباه بدلي صرف وسلم وثمن عند إقالة وبعدها وما أخذ به الشفيع ودين الميت، والسابع (القرض) فلا يلزم تأجيله.

(قوله: فلا يلزم تأجيله) أي أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم فللمقرض الرجوع عنه، ....."

(کتاب البیوع،ج5،ص158،ط؛سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن..."

(کتاب البیوع،ج5،ص166،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں