بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض کی تاخیر میں عدالت کا اضافی رقم کا حکم دینا


سوال

ایک کمیٹی کی مد  میں میں نے ایک شخص کو گیارہ لاکھ چالیس ہزار روپے ادا کرنےہیں، اس نے اس سلسلے  میں عدالت سے رجوع کیا،اور میرے خلاف کیس دائر کیا(یہ 2020ء کی بات ہے)، اور عدالت نے حکم دیا کہ اب  اصل  رقم  کے علاوہ سالانہ 8 فیصد انٹرسٹ سود بھی ادا کرنا ہوگا، اب میں اس شخص کو عدالت کے سامنے اس کی اصل رقم گیارہ لاکھ چالیس ہزار ادا کرنا چاہ رہا ہوں ،مگر عدالت کا کہنا ہے کہ  پانچ سال گزرنے کے چارلاکھ چالیس ہزار  سود بھی لازمی ادا کرنا ہے، اس عدالتی فیصلہ کی بڑی وجہ مدعی مقدمہ کی اس  پر رضامندی بھی ہے، جب کہ میں کسی بھی صورت میں  سود کی رقم  کی ادائیگی پر تیار نہیں، اس بارے میں شرعی رہنمائی چاہیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں گیارہ لاکھ چالیس ہزار روپے کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کی وجہ سے عدالت کا سالانہ 8 فیصد  مزید رقم کی ادائیگی کافیصلہ شرعاً معتبر نہیں ہے،یہ اضافی رقم صریح سود ہے،جو کہ ناجائز اور حرام ہے،سائل پر صرف اصل رقم گیارہ لاکھ چالیس ہزار روپے کی ادائیگی لازم ہے، مدعی قرض خواہ  پرلازم ہے کہ عدالت کے سامنے اصل رقم کے علاوہ باقی رقم لینے سے انکار کرے، اور اصل رقم کے علاوہ   اضافی رقم مدعی کا لینا ناجائز اور حرام ہوگا،اس لیے سائل کے لیے بہتر ہوگا کی مدعی سے مل کر اس سودی رقم کو ختم کرنے کی کوشش کرے ۔ اگر مدعی راضی نہ ہو اور عدالت سائل کو سودی رقم دینے کا پابند کرے تو اس مجبوری میں سائل گناہ گار نہیں ہوگا ۔سودی معاملہ کرنے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے، ایک حدیث میں  حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں  اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں، ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے ( کے گناہ )سے زیادہ ہے۔(مظاہر حق)

قرآن پاک میں ہے:

"{وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}."[ البقرۃ 275)

”ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔(بیان القرآن)“

وفيه ايضاً:

"{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}."(البقرة، 278۔279)

“ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ  کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے۔“(بيان القرآن)

مسلم شریف میں ہے:

"عن جابر قال: ‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

(كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، 1219/3، ط: دار إحياء التراث العربي)

سنن  الدر قطنی میں ہے:

"عن عبد الله بن حنظلة أن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال: الدرهم ربا ‌أشد ‌عند ‌الله تعالى من ستة وثلاثين زنية في الخطيئة."

(كتاب البيوع، 405/3، ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، 166/5، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں