بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی صورت میں پیداوار پر عشر کا حکم


سوال

ٹھیکہ پر حاصل کردہ زرعی زمین کی پیداوار :

1۔ زمین کا ٹھیکہ، زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک تمام کام یعنی بیج، کھاد، زرعی ادویات، مزدوری، ٹریکٹر کا کرایہ، تھریشر کا خرچ، منڈی تک پہنچ، یہ سب آڑھتی سے رقم قرض حسنہ لے کر کیا جاتا ہے۔

2۔ آڑھتی منڈی کے اصول کے مطابق فصل پر دس فیصد کمیشن کاٹنے کے بعد اپنے دئیے ہوئے قرض حسنہ کی رقم نکال کر جو رقم بچتی ہے وہ دے دیتا ہے۔

سوال:-1) بعض اوقات بچت نہیں ہوتی، ہمارے ہاتھ میں رقم نہیں ہوتی، پھر بھی عشر دیا جائے گا؟

(2) بعض اوقات پچھلا قرض بھی باقی ہوتا ہے، مقروض پر عشر واجب ہو گا؟

(3) سبزی، پھل وغیرہ یعنی وہ پیداوار جو جلد خراب ہونے والی ہیں، جنہیں ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا ان پر بھی عشر ہے؟ برائے کرم جوابات سے مستفید فرمائیں۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ  عشر یا نصفِ عشر کا تعلق کل  پیداوار سے ہوتا ہے اور قرض اس کے لیے مانع نہیں ہوتا، عشریانصف عشر  ادا کرنے سے پہلے قرض اوردیگر  وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں ، یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ عشر  یا نصفِ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔

2۔ اگر کسی شخص کے اوپر کتنا ہی قرضہ کیوں نہ ہو اس پر زمین کی پیداوار میں سے عشر یا نصفِ عشر دینا لازم ہوگا، قرض کی رقم کو الگ نہیں کیا جائے گا۔

3۔ اسی طرح سبزی ،پھل وغیرہ پر بھی عشر یا نصف عشر ادا کرنا لازم ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ويجب العشر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والرياحين والأوراد والرطاب وقصب السكر والذريرة والبطيخ والقثاء والخيار والباذنجان والعصفر، وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الزکات،الباب السادس فی زکات الزرع والثمار،ج:1،ص:186،دارالفکر)

وفيها أيضا:

"ولا تحسب أجرة العمال ونفقة البقر، وكري الأنهار، وأجرة الحافظ وغير ذلك فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشرا أو نصفا كذا في البحر الرائق."

(کتاب الزکات،الباب السادس فی زکات الزرع والثمار ،ج:1،ص:187،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144506100349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں