اگر کسی پر قرض ہو تو وہ زکات کے پیسوں سے اپنا قرض ادا کر سکتا ہے؟ مال کے اعتبار سے ابھی کچھ بھی نہیں ہے، سونا نہ چاندی کچھ بھی نہیں ہے، بائیک ہے، وہ بھی آفس آنے جانے کے استعمال میں ہے؟
جو شخص غریب اور ضروت مند ہو اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم نہیں ہے، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکوۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اگر واقعۃ مستحقِ زکوۃ ہے اور وہ زکوۃ کی رقم خود وصول کر کے اپنا قرضہ ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لیے جائز ہے، البتہ اس کی طرف سے کوئی اور آدمی اس کو زکوۃ کی رقم کا مالک بنائے بغیر خود اس کا قرضہ ادا کرتا ہے تو اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ بلکہ رقم اس کو مالک بنا کر دے دی جائے اور اس سے وہ خود قرض ادا کردے تو یہ جائز ہے۔
الفتاوى الهندية (1/ 189):
"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه".
الفتاوى الهندية (1/ 189):
"ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200033
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن