بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی رقم معاف کرنے سے معاف ہوجاتی ہے


سوال

میرے ایک عزیز نے اپنے تایا سے جھوٹے بہانے تقریبًا ایک کروڑ روپے وقفہ وقفہ سے لیے تھے، بعد میں جب اس کے تایا کو اس بات کا پتا چلا تو کچھ ناراضی کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے معاف کردیے ہیں اور کئی مرتبہ کہا ہے؛ کیوں کہ ان کے بھائی ( جس کے بیٹے نے پیسے لیے تھے ) کا کچھ سال پہلے انتقال ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے تایا کا بیٹا مسلسل کئی سالوں سے اسے پریشان کررہا ہے کہ بس پیسے واپس کرو، وہ قتل تک کی دھمکی دے چکا ہے تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا شرعًا اس کا پیسے واپس کرنا ضروری ہے اور اگر نہ کرے تو کیا گناہ گار ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ اگر مذکورہ شخص نے اپنے تایا سے یہ رقم بطورِ قرض لی تھی تو اس کی ادائیگی اس پر لازم تھی، لیکن صاحبِ قرض  چوں کہ اپنے مال پر مکمل حق رکھتا ہے  اور   سائل کے بقول  وہ  (مذکورہ شخص کے تایا)  اپنا قرض اپنی زندگی میں ہی معاف کرچکے ہیں؛  لہٰذا اس کا اپنا قرضہ معاف کرنا درست ہوا اور مذکورہ شخص کا قرضہ معاف ہوگیا؛ اب مذکورہ شخص کےتایا کے بیٹے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مذکورہ شخص سے معاف کی ہوئی رقم کا مطالبہ کرے۔ 

چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے : 

"الرجوع في الهبة مكروه في الأحوال كلها."

( الفتاوى الهندية: كتاب الهبة، الباب الخامس في الرجوع في الهبة وفيما يمنع عن الرجوع ومالا يمنع، ( 3/385) ط: رشيديه )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144207200034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں