میرے ایک عزیز نے اپنے تایا سے جھوٹے بہانے تقریبًا ایک کروڑ روپے وقفہ وقفہ سے لیے تھے، بعد میں جب اس کے تایا کو اس بات کا پتا چلا تو کچھ ناراضی کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے معاف کردیے ہیں اور کئی مرتبہ کہا ہے؛ کیوں کہ ان کے بھائی ( جس کے بیٹے نے پیسے لیے تھے ) کا کچھ سال پہلے انتقال ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے تایا کا بیٹا مسلسل کئی سالوں سے اسے پریشان کررہا ہے کہ بس پیسے واپس کرو، وہ قتل تک کی دھمکی دے چکا ہے تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا شرعًا اس کا پیسے واپس کرنا ضروری ہے اور اگر نہ کرے تو کیا گناہ گار ہوگا ؟
واضح رہے کہ اگر مذکورہ شخص نے اپنے تایا سے یہ رقم بطورِ قرض لی تھی تو اس کی ادائیگی اس پر لازم تھی، لیکن صاحبِ قرض چوں کہ اپنے مال پر مکمل حق رکھتا ہے اور سائل کے بقول وہ (مذکورہ شخص کے تایا) اپنا قرض اپنی زندگی میں ہی معاف کرچکے ہیں؛ لہٰذا اس کا اپنا قرضہ معاف کرنا درست ہوا اور مذکورہ شخص کا قرضہ معاف ہوگیا؛ اب مذکورہ شخص کےتایا کے بیٹے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مذکورہ شخص سے معاف کی ہوئی رقم کا مطالبہ کرے۔
چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
"الرجوع في الهبة مكروه في الأحوال كلها."
( الفتاوى الهندية: كتاب الهبة، الباب الخامس في الرجوع في الهبة وفيما يمنع عن الرجوع ومالا يمنع، ( 3/385) ط: رشيديه )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200034
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن