مجھ سے کسی نے 2010میں اڑھائی لاکھ 250000روپے ادھار لیے تھے اور ابھی تک واپس نہیں کیے، بلکہ 2023 تک واپس کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ 2010 میں ایک تولہ سونا کی قیمت 44500روپے تھی اور اب ایک تولہ سونا ایک لاکھ 100000تک ہو گئی ہے ۔2010میں اڑھائی لاکھ 250000کا5 پانچ تولہ سونا ملتا تھا اور اب 250000لاکھ میں 2دو یا 2.5اڑھائی تولہ ملے گا ۔ کیا ایسے میں اس آدمی سے سونے کی قیمت کے مطابق رقم وصول کرنا درست ہے یا یہ سود میں آئے گا؟ اور مستقبل میں کیا میں کسی کو اس شرط پر ادھار دے سکتا ہوں کہ اگر سونا /ڈالر مہنگا ہوا تو ادھار اس کے مطابق ادا کرو گے اور اگر سونا /ڈالر سستا ہوا تو میری رقم جو دی ہے وہی برقرار رہے گی۔ یہ سود تو نہیں ہو گا ؟
قرض کی ادائیگی کا ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض دیا جائے اس کے مثل ہی واپس لیا جائے، کرنسی کی ویلیو کم ہونے کی وجہ سے قرض دی ہوئی رقم کی واپسی پر اضافی رقم کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ سے مذکورہ شخص نے 2010میں 250000روپے ادھار لیے تھے،تو ادائیگی کے وقت 2023 میںاس کے ذمے 250000لاکھ روپے ہی لازم ہوں گے، اس سے زائد لینا اور دینا جائز نہیں ، ورنہ یہ سود کے زمرے میں آئے گا۔نیز مستقبل میں کسی کو اس شرط پر ادھار دینا کہ اگر سونا /ڈالر مہنگا ہوا تو ادھار اس کے مطابق ادا کرو گے اور اگر سونا /ڈالر سستا ہوا تو میری رقم جو دی ہے وہی برقرار رہے گی،جائز نہیں ہے۔بلکہ وہی لازم ہوگا جو دیا ہے ۔
ہاں یہ صورت جائز ہے کہ قرض میں سونا دے دیا جائے، یعنی سائل خود سونا خرید کر یا اپنے پاس پہلے سے موجود سونا وزن کرواکر قرض دے دے، اور واپسی میں اتنے وزن کا سونا واپس لے لے، خواہ اس کی قیمت بڑھی ہو یا گھٹی ہو۔
"تنقیح الفتاوی الحامدیة"میں ہے:
"الدیون تقضیٰ بأمثالها".
(کتاب البیوع، باب القرض، ج؛۱ ؍ ۵۰۰ ، ط:قدیمی)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".
(کتاب البیوع، فصل فی القرض، ج:۵ ؍ ۱۶۶ ، ط:سعید )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201015
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن