بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی وصولی کی امید نہ ہونے کی صورت میں زکوۃ کا حکم


سوال

1- ایک شخص کو قرض دیا،قرض دیتے وقت ایک سال بعد واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا ،ابھی تک واپس کی کوئی امید نہیں ہے اس پر زکات کا حکم کیا ہے؟

2-   ایک کمپنی کے ساتھ کاروبار کیا اور اب اس کمپنی سے مجھے ایک لاکھ روپے ملنے ہیں، لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک پیسے وصول نہیں ہوئے ۔اس کا کیا حکم ہے  کہ  یہ قرض نہیں،  بلکہ کاروبار کا پیسہ ہے،  لیکن وصولی فی الحال ممکن نہیں ہے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں   قرض دینے والے   نے جو قرض دیا ہے  ،اگر وہ تنہا یا دوسری موجودہ رقم  کے ساتھ مل کر بقدرِ  نصاب  (یعنی ساڑھے باون  تولہ چاندی کی قیمت کے   برابر)  ہو، لیکن قرض دینے والے کو  اپنا قرض وصول ہونے کی امید نہ ہو   ،تو ایسے قرض کی زکاۃ اس وقت تک ادا کرنا واجب نہیں جب تک کہ وہ قرض وصول نہ ہوجائے، البتہ جب وصول ہو جائے گا ، تو پچھلے(ان) تمام سالوں کی زکاۃ واجب ہوگی(جن میں اس رقم کی زکاۃ ادا نہیں کی)۔

ہاں اگر قرض دار  ،قرض خواہ  کے قرض ہی کا   انکار کر رہا ہو   اور اس کے خلاف گواہ یا دلائل بھی نہ ہوں تو ایسے قرض کی زکاۃ وصول ہونے سے پہلے ادا کرنا لازم نہیں، بلکہ وصول ہونے کے بعد ادا کرنا لازم ہے،اور جتنا  قرض وصول ہوتا رہےگاصرف    اتنے مال کی زکاۃ  ادا کرنا لازم ہو گی،اور جو قرض باقی ہوگا اس کی زکاۃ کی ادائیگی بھی لازم نہیں ہوگی، اورجو قرض ناامیدی کے بعد وصول ہوگا اس کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی اس پر واجب نہیں ہوگی۔

2۔کمپنی سے جو ایک لاکھ روپے   ملنے ہیں  چوں کہ وہ کاروبار کے ہیں لہذا   جب وہ وصول ہوجائیں،تو  ان  میں بھی گزشتہ تمام سالوں کی زکاۃ واجب ہوگی۔اگر یکمشت  ادا کرسکتا ہے تو بہتر  ،ورنہ تھوڑے تھوڑے  کرکے(قسطوں میں) ادا کرتا رہے۔

در مختار میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك. ويعتبر ما مضى من الحول قبلالقبض في الأصح، ومثله ما لو ورث دينا على رجل (و) عند قبض (مائتين مع حولان الحول بعده) أي بعد القبض (من) دين ضعيف وهو (بدل غير مال) كمهر ودية وبدل كتابة وخلع، إلا إذا كان عنده ما يضم إلى الدين الضعيف".

(كتاب الزكوة،باب زكاة المال،305/2،ط:سعيد)

ہندیہ میں ہے:

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول. ووسط، وهو ما ‌يجب ‌بدلا عن مال ليس للتجارة كعبيد الخدمة وثياب البذلة إذا قبض مائتين زكى لما مضى في رواية الأصل وقوي وهو ما ‌يجب ‌بدلا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى كذا في الزاهدي".

(كتاب الزكوة،الباب الاول في تفسير الزكوة وصفتهاوشرائطها،1/188،ط:دارالكتب العلمية)

در  مختار   میں ہے:

"(و دين) كان (جحده المديون سنين) ولا بينة له عليه (ثم) صارت له بأن (أقر بعدها عند قوم) وقيده في مصرف الخانية بما إذا حلف عليه عند القاضي، أما قبله فتجب لما مضى(مصادرة) أي ظلما (ثم وصل إليه بعد سنين) لعدم النمو. والأصل فيه حديث علي «لا زكاة في مال الضمار» وهو ما لا يمكن الانتفاع به مع بقاء الملك(ولو كان الدين على مقر مليء أو) على (معسر أو مفلس)أي محكوم بإفلاسه (أو) على (جاحد عليه بينة) وعن محمد لا زكاة، وهو الصحيح، ذكره ابن ملك وغيره لأن البينة قد لا تقبل (أو علم به قاض) سيجيء أن المفتى به عدم القضاء بعلم القاضي (فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى) وسنفصل الدين في زكاة المال."

(كتاب الزكوة ، 2/266 ، ط :سعيد)

 شامی میں ہے:

"(قوله: مليء) فعيل بمعنى فاعل وهو الغني ط. وفي المحيط عن المنتقى عن محمد: لو كان له دين على وال وهو مقر به إلا أنه لا يعطيه وقد طالبه بباب الخليفة فلم يعطه فلا زكاة فيه، ولو هرب غريمه وهو يقدر على طلبه أو التوكيل بذلك فعليه الزكاة وإن لم يقدر على ذلك فلا زكاة عليه. اهـ...(قوله: وعن محمد لا زكاة) أي وإن كان له بينة بحر (قوله: وهو الصحيح) صححه في التحفة كما في غاية البيان وصححه في الخانية أيضا وعزاه إلى السرخسي بحر. وفي باب المصرف من النهر عن عقد الفرائد: ينبغي أن يعول عليه...قلت:ونقل الباقاني تصحيح الوجوب عن الكافي قال: وهو المعتمد، وإليه مال فخر الإسلام اهـ ولذا جزم به في الهداية والغرر و الملتقى وتبعهم المصنف. والحاصل أن فيه اختلاف التصحيح ويأتي تمامه في باب المصرف".

(كتاب الزكوة، 2/267،ط:سعيد)

اسی طرح کے  ایک سوال  کا جواب فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"جس وقت قرض وصول ہوجائےاس وقت پچھلے سالوں کی زکاۃ   بھی دینا واجب ہے، اور جس سے وصول نہ ہو اس کی زکاۃ اس وقت واجب نہیں، لیکن اگر کبھی وصول ہوگیا تو پچھلے برسوں کی بھی زکاۃ دینا واجب ہے۔"

(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ، کتاب الزکاۃ،75/6، ط: دار الاشاعت)

امداد الفتاوی میں ہے:

”الجواب: اس میں اقوال مختلف ہیں اور ہر جانب تصحیح بھی کی گئی ہے، جس کی تفصیل رد المحتار، ج:۲، ص:۱۴، و ص:۹۹، مطبوعہ مصر میں موجود ہے، بندے کے نزدیک ان اقوال میں سے قول مختار یہ ہے کہ جس قرض کے وصول ہونے کی امید ضعیف ہو یا بالکل نہ ہو، قبل وصول اُس پر زکات واجب نہ ہوگی اور وصول کے بعد جس قدر وصول ہوگا، بعد حولان حول آئندہ صرف اسی قدر پر زکات واجب ہوگی"۔

"ومتمسکی فیہ ما في رد المحتار بعد نقل عبارة النہر عن الخانیة قولہ قلت، وقدمنا أول الزکاة اختلاف التصحیح فیہ، ومال الرحمتي الی ہذا وقال: بل في زماننا یقر المدیون بالدین و بملائتہ ولا یقدر الدائن علی تخلیصہ منہ، فہو بمنزلة العدم"

 (کتاب الزکاة، بعنوان: جس دین کے وصول کی امید نہ ہو، اُس پر وجوب زکات کی تحقیق،ج:3،ص: 587،  ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں