بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ادائیگی کسی دوسری کرنسی میں کرنا


سوال

ایک شخص نے دوسرے کو تقریباً  سات سال قبل قرضہ دیا اور قرضہ ریال کی صورت میں دیا ، قرضہ دینے والے نے قرضہ دیتے وقت قرض لینے والے کو یہ بھی کہا کہ :"آپ جب چاہو مجھے قرضہ واپس کرو، لیکن جب بھی واپس کروگے ، مجھے ریال ہی کی صورت میں واپس کروگے" دونوں سعودیہ عرب میں مقیم تھے اور ان کا اپنااپنا کاروبار تھا، جس کی مکمل لین دین ریال ہی کی صورت میں تھی، لیکن مقروض کا کاروبار خراب ہوگیا اور وہ پاکستان آگیا، اس وقت ریال کی 28 روپے پاکستانی تھی،جبکہ اب ریال کی قیمت 47 روپے پاکستانی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اب وہ کس طرح اپنا قرض لینے کا حق دار ہے؟ ریال کی صورت میں یا ریال کی موجودہ مالیت کے اعتبار سے؟

جواب

 صورت ِ مسئولہ میں پہلے شخص نے دوسرے شخص کوریال کی صورت میں قرض دیاتھا  ، لہذا قرض کی ادائیگی کے وقت قرض دینے والے کا حق ریال ہی واپس لینے کا ہے، یعنی ریال ہی کی صورت میں مقروض اپنا قرض اداکرےجیسا کہ دونوں کا آپس میں معاہدہ بھی ہوا تھا۔ البتہ اگرمقروض پاکستانی یا   کسی اور ملک کی کرنسی کے اعتبار سے قرض اداکررہاہو اور قرض خواہ  بھی راضی ہو تو اس صورت میں اس کرنسی کی موجودہ قیمت (یعنی قرض کی ادائیگی کے دن جو قیمت بنتی ہوگی)کااعتبار ہوگا۔ لہذا قرض کی وصولی کے وقت مارکیٹ میں اس کرنسی (مثلاً  ریال)کا جو ریٹ ہو گا، وہ اداکرنا ہوگا۔

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"أن الديون تقضى بأمثالها۔"

(الكتاب الرابع عشر الدعوى، (المادة 1613) الدعوى هي طلب أحد حقه من آخر في حضور القاضي: 2 /261،ط: دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الرهن، ‌‌فصل في مسائل متفرقة: 6/ 525، ط: سعید)

 فتاوى هندیہ میں ہے:

"المديون إذا قضى الدين أجود مما عليه لا يجبر رب الدين على القبول كما لو دفع إليه أنقص مما عليه، وإن قبل جاز كما لو أعطاه خلاف الجنس وهو الصحيح۔"

(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع: 3 / 204، ط: رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں